’برلن حملہ آور گرفتار کیا جا سکتا تھا‘
18 مئی 2017خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے جرمن دارالحکومت برلن کے اعلٰی سکیورٹی سرکاری اہلکار آندریاس گائزل کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ برس انیس دسمبر کی شام برلن کی کرسمس مارکیٹ پر ہونے والے ٹرک حملے سے بچا جا سکتا تھا۔ برلن کے صوبائی وزیر داخلہ نے ایک غیر سرکاری خفیہ دستاویز کے حوالے سے کہا کہ اس حملہ آور کو پہلے ہی گرفتار کیا جانا ممکن تھا۔
برلن کرسمس مارکیٹ حملہ: جرمن پولیس کا نو ماہ قبل ہی انتباہ
برلن حملہ: حقائق سامنے آنے کا امکان
عامری کی ہلاکت سے بہت سکون حاصل ہوا ہے، جرمن وزیر داخلہ
صوبائی وزیر داخلہ آندریاس گائزل کے بقول حکام اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ برلن ٹرک حملے کے بعد برلن پولیس کو موصول ہونے والی اطلاعات کو چھپایا گیا یا ان میں ردوبدل کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ تفتیشی عمل جاری ہے کہ آیا صوبائی تفتیشی محکمے نے ممکنہ طور پر اپنی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کی۔ برلن ٹرک حملے کا الزام تیونس کے ایک باشندے انیس عامری پر عائد کیا گیا تھا، جو بعد ازاں اطالوی شہر میلان کے نواح میں پولیس نے دو طرفہ فائرنگ میں ہلاک کر دیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ ایک غیر سرکاری دستاویز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے کی برلن میں صوبائی شاخ کی طرف سے عسکریت پسند انیس عامری کے بارے میں تفتیش کے نتائج کو ممکنہ طور پر چھپایا اور کسی حد تک دانستہ بدلا گیا تھا۔
اس دستاویز کے مطابق برلن میں کرسمس مارکیٹ پر دہشت گردانہ حملہ کرنے والے عامری پر گزشتہ برس نومبر میں ہی یہ الزامات لگائے گئے تھے کہ وہ منشیات کی تجارت میں ملوث تھا۔ یوں عامری کو دسمبر میں کیے گئے ہلاکت خیز حملے سے پہلے ہی گرفتار ہو جانا چاہیے تھا۔
گائزل نے اس دستاویز کے حوالے سے کہا ہے کہ ماہرین کے رائے میں عامری کے بارے میں ایسی قابل اعتبار معلومات فراہم کی جا چکی تھیں، جس کے تحت اسے برلن ٹرک حملے سے قبل ہی گرفتار کر لیا جانا چاہیے تھے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ متعلقہ حکام اس بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں اور کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل تمام تر پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔
انیس عامری سن دو ہزار پندرہ کے وسط میں بطور مہاجر جرمنی پہنچا تھا تاہم اس کی پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔ تیونس کے اس شہری نے ایک درجن سے زیادہ مختلف ناموں کے ساتھ شناختی دستاویزات بنا رکھی تھیں اور اگرچہ حکام اُسے جبری طور پر اُس کے وطن واپس بھیجنا چاہتے تھے لیکن اُس کے پاس ایسی دستاویزات تھیں، جن کے تحت اُسے مزید اٹھارہ ماہ تک جرمنی میں قیام کی اجازت حاصل تھی۔