برلن: سیاسی جاسوسی کا مرکز
19 نومبر 2014جرمنی کے حکومتی اور تجارتی اداروں پر سائبر حملوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی کی داخلی خفیہ ایجنسی ’ Bfv ‘ کے سربراہ ہنس گیورگ کے مطابق دیگر ممالک کی جانب سے جرمن اداروں کو روزانہ کی بنیادوں پر حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ برلن میں سائبر سکیورٹی کے موضوع پر ہونے والے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ایسے حملوں میں روس اور چین پیش پیش ہیں۔ ان کے بقول ایک اندازے کے مطابق جرمنی کے سرکاری اداروں کی ویب سائٹس کو ہیک کرنے کے لیے روزانہ تقریباً تین ہزار مرتبہ کوشش کی جاتی ہے اور جرائم پیشہ افراد ان ویب سائٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’ان میں سے تقریبا پانچ حملوں میں خفیہ ایجنسیاں ملوث ہوتی ہیں۔‘‘
ہنس گیورگ کے بقول’’ ہم نے گزشتہ دنوں کے دوران محسوس کیا ہے کہ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے جرمن حکومت کے کمپیوٹر نظام پرحملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جب کوئی بڑا عالمی اجلاس ہوتا ہے تو ہیکنگ کی کوششیں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اس دوران برلن کے حکومتی مشیروں کو دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کی جانب سے وائرس والی ای میلز بھجی جاتی ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ کام اس قدر تجربہ کاری سے کیا جاتا ہے کہ اگر انتہائی محتاط رویہ نہ اختیار کیا جائے تو بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔
انہوں نے برلن کو سیاسی جاسوسی کا مرکز قرار دیا کیونکہ اب تک ہیکرز تمام بڑے جرمن اداروں کے کمپیوٹر نظام میں داخل ہونے کی کوشش کر چکے ہیں۔ جرمنی کو یورپی یونین کے اقتصادی شعبے کی شہ رگ قرار دیا جاتا ہے۔ اسے امریکا اور نیٹو کا انتہائی قریبی ساتھی تصور کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے یہاں سائبر حملے ایک معمول بن گئے ہیں۔
جہاں تک نگرانی کا تعلق ہے، تو جرمنی اس حوالے سے کافی حساس رویہ رکھتا ہے۔ اس کا تعلق جرمنی کے ماضی ہے، جب مشرقی جرمنی میں خفیہ پولیس نے اس قانون کا غلط استعمال کیا تھا۔ امریکی خفیہ ادارے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ قومی سلامتی کے امریکی ادارے نے جرمن چانسلر انگیلا مریکل کی ٹیلیفون سنی تھیں۔ اس کے بعد شہریوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا۔