1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن میں اہم رہنماؤں کا یورپی فورم، موضوع زیادہ تر ایک ملک

ماتھیاس بوئلنگر / مقبول ملک13 مئی 2016

جرمن دارالحکومت برلن میں جمع ہونے والے اعلیٰ ترین یورپی رہنماؤں کے فورم میں موضوع تو یورپ اور اس کو درپیش مسائل ہی تھے لیکن زیادہ تر توجہ ایک ہی ملک پر مرکوز رہی، جو مہاجرین کے بحران کے تناظر میں ترکی تھا۔

https://p.dw.com/p/1IncS
Deutschland Europe Forum Bundeskanzlerin Angela Merkel
جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

برلن میں اس یورپی فورم کا اہتمام بدھ بارہ مئی کو کیا گیا اور اس میں شریک رہنماؤں میں یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ینکر اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل سمیت بہت سی انتہائی اہم یورپی شخصیات شامل تھیں۔ ایک بات جو خاص طور پر محسوس کی گئی، وہ یہ تھی کہ یورپی سیاستدان یورپی یونین سے باہر ایک ملک یعنی ترکی کے رویے پر خاصی تشویش کا شکار تھے۔ چانسلر میرکل نے زور دے کر کہا کہ تارکین وطن سے متعلق ترکی کے ساتھ طے پانے والے یورپی معاہدے کو ہرحال میں ناکامی سے بچایا جانا چاہیے۔

اس فورم میں اس بارے میں بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا کہ یورپ کو اس وقت کون کون سے بڑے مسائل اور چیلنج درپیش ہیں اور ان سے کس طرح کامیابی سے نکلا جا سکتا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے قدرے تشویش کے ساتھ کہا کہ اس وقت یورپ کی بات کرتے ہوئے ایسا لہجہ اختیار کیا جا رہا ہے، جیسے اس براعظم کو کسی ’جنگ کی سی صورت حال‘ کا سامنا ہو۔

اس فورم میں یورپی پارلیمان کے جرمنی سے تعلق رکھنے والے سوشل ڈیموکریٹ اسپیکر مارٹن شُلس ذاتی طور پر تو موجود نہیں تھے تاہم انہوں نے شرکاء سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کیا۔ اس سیاسی مباحثے کا اہتمام جرمن نشریاتی ادارے WDR نے کیا تھا اور یہ اجلاس ایک طرح سے سرکردہ سیاستدانوں کی ایک ’یورپی فیملی میٹنگ‘ تھا۔

Deutschland Frank-Walter Steinmeier Bundesaußenminister
جرمن وزیر خارجہ شٹائن مائرتصویر: picture-alliance/dpa/S. Pilick

شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ شٹائن مائر نے کہا، ’’اگر ایک سال بعد ہمیں آج کی یورپی یونین اس حال میں نظر آئے کہ ہم اسے اصلی یورپی یونین کی طرح پہچان بھی سکیں، تو ہمارے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا کہ ہم نے کیا کچھ حاصل کر لیا ہے۔‘‘

اس اجلاس میں شرکاء نے ان بارے میں بھی کھل کر اظہار خیال کیا کہ کس طرح یوکرائن کا تنازعہ، مشرق وسطیٰ کا دیرینہ مسئلہ اور عالمگیریت کی وجہ سے محسوس کیا جانے والا جغرافیائی سرحدوں کا خاتمہ یورپی شہریوں کے ذہنوں میں ایک خاص طرح کے خوف کی وجہ بن رہا ہے اور دائیں بازو کی عوامیت پسند یورپی سیاسی جماعتیں اس صورت حال کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

برطانیہ میں اگلے مہینے ہونے والے اس عوامی ریفرنڈم کے بارے میں، جس میں ووٹر اس بارے میں فیصلہ کریں گے کہ لندن کو یورپی یونین میں رہنا چاہیے یا یونین سے خارج ہو جانا چاہیے، جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمگیریت کے دور میں یہ برطانوی ریفرنڈم یورپی یونین کے لیے ایک امتحان بھی ہے۔

فرانک والٹر شٹائن مائر نے امید ظاہر کی کہ برطانوی ووٹر جون میں ہونے والے اس ریفرنڈم میں برطانیہ کی آئندہ بھی یورپی یونین میں شمولیت کے حق میں رائے دیں گے، کیونکہ دوسری صورت میں، شٹائن مائر کے بقول، برطانیہ کو ایک بار پھر اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ وہاں شمالی آئرلینڈ کا تنازعہ پھر سے سر اٹھانے لگے۔

Deutschland Europe Forum Jean-Claude Juncker
یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکرتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber

اس فورم میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ یورپی سیاستدانوں کو یورپی نوجوانوں کے لیے اس بلاک میں روزگار کے زیادہ سے زیادہ نئے مواقع پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ یونین کی رکن ریاستوں میں قومی شناخت کے عمل کی نفی بھی نہ ہو اور ساتھ ہی یورپی یونین کے لیے زیادہ سے زیادہ قبولیت کی راہ بھی ہموار کی جا سکے۔

اس فورم میں یورپی رہنماؤں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ یورپ اپنے ہاں پائے جانے والے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے کئی ٹھوس اقدامات کر چکا ہے اور ان اقدامات کے عملی نتائج ظاہر ہونا شروع بھی ہو چکے ہیں، جن میں آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں مزید بہتری کی پوری امید کی جا سکتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں