برلینالے ٹیلنٹ کیمپس
19 فروری 2010جرمنی میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والا بین الاقوامی فلمی میلہ برلینالےکل یعنی اکیس فروری کو اختتام پذیر ہو رہا ہے۔ یہاں صرف تجربہ کار فلم سازوں کے لئے ہی مواقع نہیں ہیں بلکہ نوجوانوں کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔ 2003ء سے برلینالے ٹیلنٹ کیمپس اس فلمی میلے کا حصہ ہے۔ کون نوجوان نہیں چاہتا کہ دھڑکتے دلوں، لززتے ہونٹوں اور مظرب نظروں کے ساتھ دنیائے عشق کے دوشیزائیں اس کی راہوں میں پلکیں بچھائیں۔ کس حسنیہ کی یہ خواہش نہیں ہوتی کہ وہ خوبرو نوجوانوں کی مرکزِ نگاہ بنے، جواس کے لئے چاند سے تارے توڑکرلائیں، فلک بوس وادیوں میں اس کے حسن کے گیت گائیں، صبح وشام اس کے نخرے اٹھائیں اور اس کی راہ گزر کو خوب صورت پھولوں سے سجائیں۔
اس طرح کی زندگی بہت سے لوگوں کے لئے کسی افسانوی دنیا کا منظر ہے۔ لیکن فن کی راہوں کے جو مسافر ہوتے ہیں ان کے لئے یہ کوئی دیو مالائی قصہ نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ شوبز کی دنیا کے ستارے اس شمع کی مانند ہوتے ہیں ، جن کے اس جدید دورمیں ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں اور اربوں پروانے ہوتے ہیں جو ان کے ایک اشارے پر مر مٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
کیا آپ کو بھی فن کی بلندیاں چھونے کا شوق ہے، کیا آپ بھی ہالی وڈ اور بالی وڈ کے روشن آسمان کے درخشاں ستارے بننا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کے صلاحیتوں کی دنیا میں بھی کوئی شاہ رخ خان، انجیلینا جولی، کرن جوہر، کیٹ ونسلیٹ، رانی مکھر جی یا عامر خان پوشیدہ ہے۔
جیسا کے نام سے ظاہر ہےکہ ٹیلنٹ کیمپس میں باصلاحیت نوجوان فلم سازوں کو ان کی تخلیقات متعارف کرانے کا موقع دیا جاتا ہے۔ یہاں نوجوان فلم ساز آپس میں مل بیٹھ کر اپنے تجربات کا تبادلہ کرتے ہیں اور ان کے لئے سیمینارز منقعد کرائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر فلم کے شعبے کے ماہرین ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس مرتبہ بھارت سے کئی نوجوان فلم ساز بھی ٹیلنٹ کیمپس کا حصے تھے۔ ان میں سے ایک ہیں شرت راجو۔ بھارتی نژاد راجو ، نیویارک میں رہتے ہیں اور پہلی مرتبہ اس میلے میں شرکت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر جب بھی وہ فلم کی کہانی کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ان کے ذہن میں صرف یہ آتا ہے کہ جب اس کہانی کو فلم کی صورت میں ڈھالا جائے گا تو کیسا لگے گا؟ اوراس کی فلم بینوں کے لئے کیا اہمیت ہو گی۔
گزشتہ برس ٹیلنٹ کیمپس میں دنیا بھر سے تقریباً تین سو نوجوانوں نے شرکت کی تھی تاہم اس سال یہ تعداد ساڑھے تین سو ہو گئی ہے۔ 2007 سے ٹیلنٹ کیمپس برلن کے مشہور ہیبل نامی تھیٹر میں منعقد ہوتا ہے۔ اس میں کس طرح شریک ہوا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے انتظامیہ نے مختلف شرائط رکھی ہیں۔ اُن نوجوانوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، جن کی بنائی ہوئی فلم کسی ایوارڈ کے لئے نامزد ہوئی ہو یا وہ کوئی ایوارڈ حاصل کر چکی ہو۔ کسی فلمی میلے کے لئے منتخب کی جانے والی مختصر یا طویل دورانیے کی فلمیں بنانے والے نوجوان بھی ٹیلنٹ کیمپس میں شرکت کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فلم کے شعبے کے وہ طالب علم، جو اپنی پڑھائی کے آخری مراحل میں ہوں وہ بھی اپنی درخواستیں ارسال کر سکتے ہیں۔
اب فرض کریں کہ آپ فلم ساز نہیں ہیں لیکن کسی نہ کسی طرح اسی شعبے سےمنسلک ہیں، تو بھی ٹیلنٹ کیمپس کے دروازے آپ کے لئے کھلے ہیں۔ وہ کس طرح ؟ نوجوان کہانی نویسوں، اداکاروں، ساؤنڈ اور سیٹ ڈیزائنرز، ہدایتکار، پروڈیوسر کے علاوہ موسیقار اور فلم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی ٹیلنٹ کیمپس کا حصہ بننے کے اہل ہیں۔
جوکوئی ان میں سے ایک بھی شرط پوری کرتا ہے وہ ٹیلنٹ کیمپس کے لئے اپنی درخواست بھیج سکتا ہے۔ پھر جانچ پڑتال کے بعد منتخب کئے جانے والے نوجوانوں کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس مرتبہ دنیا بھرسے پانچ ہزار درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جن میں سے صرف ساڑھے تین سو نوجوانوں کو منتخب کیا گیا ہے۔
برلینالے ٹیلنٹ کیمپس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں نوجوان صرف ایک بارہی شرکت کر سکتا ہے۔ مختصر فلموں کا ایک مقابلہ ہوتا ہے جسے برلن ٹوڈے کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں ٹیلنٹ کیمپس میں شرکت کرنے والے اور وہ جو شرکت کر چکا ہو اپنے اپنے آئڈیاز پیش کر سکتے ہیں۔ جس کے بعد جرمنی میں فلم بنانے والی کمپنیاں ان میں سے پانچ کا انتخاب کرتی ہیں۔
اس مرتبہ ٹیلنٹ کیمپس کا موٹو ہے ’Cinema needs Talent looking for the Right People‘۔ اس کے علاوہ ٹیلنٹ کیمپس کو دیکھنے کے لئےآنے والوں کے لئے ماہرین فلم کے لیکچرز اور ان کے ساتھ ڈسکشنز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ بس مقصد صرف ایک ہے کہ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں اور پیشہ ورافراد کے تجربے کو استعمال کیا جائے۔ برلیانلے ٹیلنٹ کیمپس کا دوسرا نام ہے ’نوجوانوں کے لئے ایک موقع‘
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت: کشور مصطفی