برِکس گروپ : ’توسیع ابھی خارج از امکان‘
14 جولائی 2014درحقیقت BRICS ترقی کی دہلیز پر کھڑے ممالک کے درمیان محض ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد ہے کیونکہ یہ ممالک اپنی نوعیت اور مفادات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔
برازیل میں فٹ بال کا ورلڈ کپ ختم ہوتے ہی ایک اہم بین الاقوامی کانفرنس شہ سرخیوں کا موضوع بن رہی ہے۔ پانچ رکنی BRICS گروپ کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے بعد میزبان برازیل کی صدر دلما روسیف نے بھی کہہ دیا ہے کہ سرِدست کسی نئے ملک کو اس گروپ میں شامل کرنے پر غور نہیں کیا جا رہا۔ واضح رہے کہ ارجنٹائن اس میں شمولیت کا ایک ممکنہ امیدوار ہے۔
چینی صدر شی جِن پِنگ اور جنوبی افریقی صدر جیکب زوما کے ساتھ ساتھ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی، جو برازیل جاتے ہوئے راستے میں اتوار کو کچھ دیر کے لیے جرمن دارالحکومت برلن میں رکے تھے، اس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔
برکس ممالک کے ارکان علاقائی طاقتوں کی حیثیت رکھتے ہیں، اِن کی مجموعی آبادی تین اعشاریہ تین ارب نفوس پر مشتمل ہے اور ان کی اقتصادی کارکردگی مجموعی عالمی پیداوار کا تقریباً بیس فیصد بنتی ہے۔ جرمن شہر کیل میں قائم ادارہ برائے عالمی اقتصادیات سے وابستہ ماہر رولف لانگ ہامر اس گروپ کے رکن ملکوں کی ایک دوسرے سے مختلف اقتصادی حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’بھارت یقینی طور پر ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ یہ بات ہم اب روس کے لیے مزید نہیں کہہ سکتے۔ چین ایک بڑی صنعتی طاقت بننے والا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیسے یہ لوگ ان سب ملکوں کو ایک ہی چھتری کے نیچے لانا چاہتے ہیں۔‘‘
رولف لانگ ہامر کے مطابق اس گروپ کے اندر بھی گروپ بنے ہوئے ہیں مثلاً 2008ء کے دوحہ راؤنڈ میں برازیل اور بھارت نے ترقی کی دہلیز پر کھڑے اور ترقی پذیر ملکوں کی نمائندگی کی۔ ایک سال بعد چین اور بھارت نے مل کر عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں ایک ایسے معاہدے کو ناکام بنا دیا، جو اُن کے مفادات کے خلاف تھا۔ تازہ مثال اس سال مئی میں چین اور روس کے درمیان چار سو ارب ڈالر کا گیس کی خریداری کا وہ معاہدہ ہے، جس کے ذریعے روس مغربی دنیا پر یہ بات واضح کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنی گیس کسی اور کو بھی فروخت کر سکتا ہے۔
برکس کے رکن ملک بظاہر آپس میں اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں تاہم پسِ پردہ اُن کے درمیان تناؤ بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً روس کو اس بات پر تشویش ہے کہ وسطی ایشیا میں روس کی جگہ چین کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ چینی باشندے سائبیریا میں آباد ہو رہے ہیں۔ اسی طرح چین اور بھارت کے سرحدی تنازعات ان دونوں ایشیائی ملکوں کے تعلقات کو متاثر کر رہے ہیں۔ جرمن ماہر اقتصادیات رولف لانگ ہامر کے مطابق برکس کے رکن ممالک ایک دوسرے کے ساتھی نہیں ہیں بلکہ خام مادوں اور وسائل کے معاملے میں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔
ایک مشیر ادارے ’شِفٹنگ وَیلتھ‘ سے وابستہ ماہر ہیلمٹ رائزن مختلف برکس ممالک کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’برکس کے رکن ملکوں میں جنوبی افریقہ کی شرحِ نمُو سب سے کم ہے جبکہ اُسے بیروزگاری کی اونچی شرح کے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ جنوبی افریقہ میں ٹریڈ یونین تنظیمیں بہت طاقتور ہیں اور لمبے لمبے عرصے تک جاری رہنے والی ہڑتالوں نے وہاں کی معیشت کو مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے۔ اُن کے خیال میں بھارت نے بھی اگرچہ سافٹ ویئر اور ادویات کے شعبے میں کافی ترقی کی ہے لیکن ان شعبوں میں روزگار کے زیادہ مواقع پیدا نہیں ہو سکے، جس کی وجہ سے زیادہ تر آبادی بدستور غربت کا شکار ہے۔ برکس سربراہ کانفرنس کے میزبان ملک برازیل کی اقتصادی ترقی کی رفتار بھی قابلِ رشک نہیں ہے۔
اپنی اس سربراہ کانفرنس کے دوران یہ ممالک پچاس ارب ڈالر کے ابتدائی سرمایے کے ساتھ ایک ترقیاتی بینک قائم کرنا چاہتے ہیں، جو برکس کے رکن ملکوں کے ساتھ ساتھ غریب ملکوں میں بھی اقتصادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے منصوبوں کے لیے سرمایہ فراہم کرے گا۔ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے متبادل کے طور پر ایک چھوٹا سا مالیاتی فنڈ بھی قائم کرنے کی تجویز ہے، جس کے پاس ایک سو ارب ڈالر ہوں گے اور جو معاشی مشکلات کی صورت میں رکن ملکوں کی مدد کر سکے گا۔