برکینا فاسو: القاعدہ کا ہوٹل پر قبضہ، کم از کم بیس ہلاکتیں
16 جنوری 2016نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ہفتہ سولہ جنوری کی صبح ملنے والی رپورٹوں کے مطابق دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے عسکریت پسندوں نے برکینا فاسو کے دارالحکومت واگاڈُوگُو میں ایک لگژری ہوٹل پر جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات حملہ کرتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس حملے کے دوران شدت پسندوں نے بہت سے افراد کو یرغمال بنا کر ان میں سے متعدد کو ہلاک کر دیا۔ مختلف خبر رساں اداروں نے ہلاک شدگان کی تعداد کم از کم بھی 20 بتائی ہے۔ دوسری طرف نیوز ایجنسی اے پی نے ایک حکومتی وزیر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ آج ہفتے کی صبح، جب فجر کی اذانیں دی جا رہی تھیں، ایک ریستوراں سے کم از کم 10 افراد کی لاشیں مل گئیں۔
اس حملے کی اطلاع ملتے ہی برکینا فاسو کے ہمسایہ ملک مالی سے، وہاں تعینات فرانسیسی دستوں کے درجنوں فوجی واگاڈوگو پہنچ گئے تاکہ صورت حال پر قابو پانے میں مقامی حکام اور فورسز کی مدد کی جا سکے۔ ایک اعلیٰ امریکی دفاعی اہلکار نے بتایا کہ ان فرانسیسی فوجیوں کے ساتھ امریکی فوج کا ایک ایسا ماہر بھی موجود ہے، جو اس واقعے کو اس کے انجام تک پہنچانے اور ہوٹل کو دہشت گردوں کے قبضے سے چھڑانے کی عسکری کارروائی میں پیرس کے فوجی کمانڈوز کی مدد کر رہا ہے۔ برکینا فاسو میں امریکا کے 75 فوجی تعینات ہیں۔
سائٹ نامی انٹیلیجنس گروپ کی اطلاعات کے مطابق واگاڈوگو شہر کے وسط میں جس لگژری ہوٹل پر دہشت گردوں نے قبضہ کیا، اس کا نام Splendid ہوٹل ہے، جس کے 147 کمرے ہیں۔
اس حملے کے بعد القاعدہ نیٹ ورک کی علاقائی شاخ AQIM نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کر لی۔ برکینا فاسو کی حکومت کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے مختلف نیوز ایجنسیوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملہ انہی انتہا پسندوں نے کیا ہے، جنہوں نے گزشتہ برس نومبر میں مالی کے دارالحکومت میں بھی ایک مہنگے ہوٹل پر حملہ کیا تھا۔ مالی میں دہشت گردی کے اس واقعے میں بھی 20 افراد مارے گئے تھے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ واگاڈوگو کے اس ہوٹل میں حملہ آوروں نے تاحال کتنے افراد کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
آن لائن انٹیلیجنس گروپ SITE کے مطابق اس حملے کے بعد دہشت گردوں نے ’مسلم افریقہ‘ کے نام سے قائم کردہ اپنے ایک ’ٹیلیگرام‘ اکاؤنٹ پر عربی زبان میں جاری کردہ ایک پیغام میں کہا، ’’ہمارے جنگجوؤں نے برکینا فاسو کے دارالحکومت کے سب سے بڑے ہوٹلوں میں سے ایک کے ریستوراں میں داخل ہو کر کارروائی کی اور اس وقت وہ ’دین کے دشمنوں‘ کے ساتھ اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ بعد ازاں ہوٹل میں موجود دہشت گردوں نے ٹیلی فون پر یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے ’کئی صلیبیوں‘ کو مار دیا ہے۔
برکینا فاسو کے وزیر داخلہ سائمن کومپااورے کے مطابق عسکریت پسندوں نے، جو اس وقت ہوٹل کے اندر موجود ہیں، اپنے حملے کا آغاز ہوٹل سے متصل ’کاپوچینو کیفے‘ نامی ایک ریستوراں پر قبضے سے کیا۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ آج صبح تک اس ریستوراں کے اندر سے دس ہلاک شدگان کی لاشیں مل چکی تھیں۔ اے پی نے مقامی حکام اور عینی شاہدوں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ ہوٹل پر قابض دہشت گرد وہاں سے زندہ باہر نہیں نکل سکیں گے۔
برکینا فاسو زیادہ تر مسلم آبادی والا ایک مغربی افریقی ملک ہے، جو گزشتہ کئی برسوں کے دوران مسلح اسلام پسند گروہوں کی خونریزی سے زیادہ تر بچا رہا تھا لیکن اب یہ خونریزی اس ملک تک بھی پہنچ گئی ہے۔ اس ملک میں مسلمان انتہا پسندوں کا پہلا حملہ گزشتہ برس اپریل میں دیکھنے میں آیا تھا، جس دوران شدت پسندوں نے یورپی ملک رومانیہ کے ایک شہری کو اغوا بھی کر لیا تھا۔
تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق برکینا فاسو اور فرانس کے فوجی اس ہوٹل سے متعدد افراد کو بحفاظت باہر نکال لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں جبکہ ہوٹل پر شدت پسندوں کے قبضے کے خاتمے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔