بریکزٹ کے بعد چیکزٹ
23 فروری 2016بریکزٹ کے بعد چیکزٹ
چیک جمہوریہ کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ ریفرنڈم کے نتیجے میں برطانیہ اگر یورپی یونین سے راستے جدا کرتا ہے تو اُن کے ملک میں بھی اِس مناسبت سے یعنی یورپی یونین چھوڑنے کی بحث کا آغاز کر سکتا ہے۔
چیک جمہوریہ کے وزیراعظم بوہوسلاو سوبوتکا نے آج ملکی دارالحکومت پراگ میں ایک بیان میں کہا کہ اگر رواں برس کے دوران برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کا ریفرنڈم کامیاب ہو جاتا ہے تو اِس مناسبت سے اُن کے ملک میں بھی عوامی بحث شروع ہو سکتی ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اِسی سال تیئیس جون کو ملک میں ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا ہے اور اُس میں برطانوی عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ یورپی یونین میں رہا جائے یا اِس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔
چیک جمہوریہ میں تین چوتھائی عوام یورپی یونین کی رکنیت پر کوئی مسرت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اِس پر اپنی خفگی و ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق اگر یورپی یونین چھوڑنے کا کوئی سروے کروایا جائے تو چیک جمہوریہ کے باسٹھ فیصد عوام اِس کے حق میں اپنا ووٹ ڈالیں گے۔ چیک وزیراعظم کے مطابق اگر برطانوی ریفرنڈم کا نتیجہ یورپی یونین کی توقع کے خلاف آتا ہے تو اُن کے ملک میں شروع ہونے والی عوامی بحث کا یہ موضوع ہو گا کہ چیک جمہوریہ بھی اگلے دو چار برسوں میں یونین کو الوادع کہہ دے۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بوہوسلاو سوبوتکا کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں تیئیس جون کا ریفرنڈم کیمرون حکومت کے خلاف آتا ہے تو اِس کا امپکٹ سارے یورپ پر مرتب ہو گا اور ’چیکزٹ‘ کا معاملہ اُن کے ملک میں مقبول ہو سکتا ہے اور ایک مرتبہ پھر چیک جمہوریہ یورپی یونین سے رشتے ناطے توڑ کر روسی اقتصادی و سماجی زیر اثر میں چلا جائے گا۔ سوبوتکا کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے یونین سے اخراج کی صورت میں چیک جمہوریہ میں یہ سوچ بھی تقویت پکڑ سکتی ہے کہ سن 1989 میں سابقہ چیکوسلاواکیہ کے بعد رونما ہونے والے تمام ریاستی اقدامات درست نہیں تھے۔
سن 1993 میں چیکو سلاواکیہ کی تقسیم کے بعد چیک جمہوریہ نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں سن 1999 میں شمولیت اختیار کی تھی اور سلوواکیہ اِسی اتحاد کا رکن سن 2004 میں بنا تھا۔ چیک جمہوریہ کے سابق صدر واسلاف کلاؤس بھی یورپی اتحاد بارے شکوک و شبہات کے حامل مقبول سیاستدان تھے۔ وہ اپنے ملک میں دس برس تک منصبِ صدارت پر فائز رہے اور اِس دوران وہ مسلسل یورپی یونین مخالف جذبات پر تیل چھڑکتے رہے۔ موجودہ صدر میلوس زیمن بھی یونین کی مخالفت میں بیان دینے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ آج یورپی یونین کے مخالفین ریفیوجی بحران کا سہارا لیے ہوئے ہیں۔ چیک حکومت مزید مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے راضی نہیں ہے۔