1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریگزٹ امور کے نگران برطانوی وزیر ڈیوڈ ڈیوس مستعفی

9 جولائی 2018

بریگزٹ امور کے نگران برطانوی وزیر ڈیوڈ ڈیوس مستعفی ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اپنا استعفیٰ کابینہ کے اس فیصلے کے دو روز بعد دیا کہ لندن یورپی یونین سے اخراج کے بعد بھی یونین کے ساتھ اپنے قریبی اقتصادی روابط قائم رکھے گا۔

https://p.dw.com/p/313ly
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Neal

برطانوی دارالحکومت لندن سے پیر نو جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق مقامی میڈیا نے لکھا ہے کہ ڈیوڈ ڈیوس، جو بریگزٹ کے حوالے سے سخت گیر سوچ کے حامل سیاستدان ہیں، ملکی وزیر اعظم ٹریزا مے کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے ماضی قریب میں کئی بار اپنی ذمے داریوں سے مستعفی ہو جانے کی دھمکی دے چکے تھے۔ تاہم اس مرتبہ وہ واقعی اپنی ذمے داریوں سے علیحدہ ہو گئے ہیں۔

روئٹرز کے مطابق ڈیوڈ ڈیوس نے، جو بریگزٹ سے متعلقہ معاملات طے کرنے کے لیے یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات میں برطانیہ کے اعلیٰ ترین مندوب بھی تھے، وزیر اعظم ٹریزا مے کے نام اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ وہ ملکی وزیر اعظم کے ’ڈیفنس کیڈٹ‘ کے طور پر کام نہیں کر سکتے۔

اس سے چند ہی روز قبل ٹریزا مے نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی پوری کابینہ کو اس بارے میں اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہو گئی ہیں، کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کا پروگرام کیا ہو گا۔ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ڈیوس کے مستعفی ہو جانے کے فیصلے سے اب ٹریزا مے کا بطور وزیر اعظم مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے، اور وہ بھی لندن میں ملکی کابینہ کے اس فیصلے کے محض 48 گھنٹے کے اندر اندر کہ یونین کے ساتھ مستقبل کے اقتصادی روابط سے متعلق ایک تجویز منظور کر لی جائے گی۔

مے حکومت کی اس بارے میں تجویز یہ تھی کہ لندن برسلز میں یورپی یونین کی قیادت کو یہ پیشکش کرے گا کہ بریگزٹ کے بعد بھی یورپی یونین اور برطانیہ ایک آزاد تجارتی معاہدے پر عمل پیرا رہ سکتے ہیں۔ برطانوی کابینہ میں یہ تجویز بہت متنازعہ تھی اور ڈیوڈ ڈیوس کے استعفے میں بھی اسی متنازعہ تجویز نے فیصلہ کن کردارا دا کیا۔

Theresa May
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مےتصویر: picture-alliance/empics/S. Rousseau/PA Wire

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ ڈیوس نے مے کے نام اپنے خط میں لندن کی اب تک کی بریگزٹ پالیسی کو ’مسائل سے بھرپور‘ قرار دیا، جس پر عمل درآمد کی صورت میں نہ صرف لندن کی برسلز کے ساتھ مذاکرات میں پوزیشن بہت کمزور ہو جائے گی بلکہ ساتھ ہی اس سے برطانیہ کی ساکھ بھی متاثر ہو گی۔

ساتھ ہی ڈیوڈ ڈیوس نے یہ بھی لکھا کہ لندن حکومت نے بریگزٹ سے متعلقہ حمتی فیصلوں کے لیے ’ملکی پارلیمان کو اختیار دینے کی جو بات کی ہے، وہ حقیقت سے زیادہ ایک دھوکا‘ ہے، جس کے بعد ’برطانوی معیشت کے کئی حصے لندن حکومت کے دعووں کے برعکس یورپی یونین ہی کے اختیار میں‘ رہیں گے۔

وزیر اعظم ٹریزا مے کے لیے سیاسی طور پر کافی حد تک بے چینی کا سبب ڈیوڈ ڈیوس کا اپنے خط میں یہ لکھنا بھی ہے، ’’برطانیہ کے قومی مفادات اس بات کے متقاضی ہیں کہ میرے عہدے پر ایک وزیر کی حیثیت سے کسی ایسی شخصیت کو فائز کیا جائے، جو آپ (وزیر اعظم مے) کی سوچ کا پرجوش حامی ہو، نہ کہ میری طرح محض ناچاہتے ہوئے ہی آپ کی سوچ پر عمل پیرا ہو۔‘‘

برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف کے مطابق اسی اختلاف رائے کے باعث صرف ڈیوڈ ڈیوس ہی مستعفی نہیں ہوئے بلکہ لندن میں بریگزٹ امور کی وزارت کے ایک جونیئر وزیر اسٹیو بیکر بھی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے ہیں۔

م م / ا ا / روئٹرز، ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید