بریگزٹ: برطانیہ کا یورپی یونین سے مذاکرات کا آغاز
19 جون 2017یورپی یونین کو چھوڑنے کے ریفرنڈم کے تقریباً ایک برس بعد برطانوی حکومت کی جانب سے رسمی مذاکرات کا آغاز آج سے ہو رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ مذاکراتی عمل اتنا بھی دوستانہ نہیں ہو گا کیونکہ فریقین کو مشکل سوالات کا جواب دینا ہو گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حل طلب پیچیدہ معاملات فریقین کے لیے سردردی کا سبب بن سکتے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے رواں برس یورپی یونین چھوڑنے کے لیے لزبن معاہدے کی ایک بنیادی شرط شق پچاس پر عمل کرنے کی لازمی شرط پوری کر دی تھی۔
برطانیہ کی جانب سے مے حکومت کے بریگزٹ منسٹر ڈیوڈ ڈیوس اور یونین کے مذاکرات کارِ اعلیٰ فرانسیسی سفارت کار مِشل بارنیر کے مابین یورپی یونین کے صدر دفتر میں ملاقات ہو گی۔ اس مذاکراتی عمل کو مارچ سن 2019 تک مکمل کرنا لازمی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے اگلے اکیس مہینوں میں مسلسل مذاکرات جاری رکھنے کے باوجود ایسا امکان کم ہے کہ برطانیہ اور یونین اپنے معاملات خوش اسلوبی سے طے کر سکیں گے۔ رواں ماہ برطانوی انتخابات کے نتائج کے تناظر میں وزیراعظم ٹریزا مے کی پوزیشن مزید کمزور ہوئی ہے۔
برسلز پہنچنے کے بعد برطانوی وزیر ڈیوڈ ڈیوس کا کہنا ہے کہ مذاکرات کو حتمی شکل دینے کا سفر طویل ضرور ہے لیکن منزل واضح ہے لہذا تمام پیچیدگیوں سے نکلتے ہوئے برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان خاص پارٹنرشپ قائم کی جائے گی۔ ڈیوس کے مطابق وہ اس سفر کے لیے تیار ہیں اور کام پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کریں گے۔
یورپی یونین کی جانب سے واضح کیا جا حکا ہے کہ یونین اور برطانیہ کے خاص شراکتی تعلقات پر فوکس کرنے سے قبل تین اہم معاملات کو طے کرنا ضروری ہیں اور جن میں اول برطانیہ کو یونین چھوڑنے پر 112 بلین ڈالر ادا کرنے ہوں گے، دوم برطانیہ میں آباد تیس لاکھ یورپی یونین کے ممالک کے شہریوں کا مستقبل اور سَوّم یورپ میں رہنے والے دس لاکھ برطانوی باشندوں کے حیثیت کا تعین اہم ہیں۔