بریگزٹ کے بارے میں لندن ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ کل جمعرات کو
2 نومبر 2016لندن سے بدھ دو نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اس فیصلے میں عدالت کو یہ حکم دینا ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے اس سال موسم گرما میں ایک عوامی ریفرنڈم کے ذریعے کیے جانے والے فیصلے کے بعد ابھی تک 28 رکنی یورپی بلاک سے برطانیہ کی رخصتی کے عمل کا آغاز وزیر اعظم ٹریزا مے کی حکومت کو کرنا چاہیے یا برطانوی پارلیمان کو۔
اس بارے میں برطانوی دارالحکومت کی اس عدالت نے اپنی سماعت گزشتہ ماہ مکمل کر لی تھی۔ یہ سماعت ایک ایسی قانونی درخواست پر کی گئی تھی، جس میں کئی سماجی تنظیموں اور حلقوں کے نمائندہ افراد نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ موجودہ وزیر اعظم ٹریزا مے اور ان کی حکومت میں شامل وزراء کو یہ اختیار ہی حاصل نہیں کہ وہ بریگزٹ کے لیے یورپی یونین کے لزبن معاہدے کی 50 ویں شق پر عمل درآمد کا باقاعدہ آغاز کر سکیں۔
لزبن معاہدے کی اس شق کے مطابق اس بلاک کا کوئی بھی رکن ملک اپنے قومی پارلیمانی ادارے کی طرف سے واضح حمایت کے بغیر بھی یورپی یونین کی رکنیت ترک کر سکتا ہے۔
روئٹرز نے لکھا ہے کہ اگر جمعرات تین نومبر کو لندن کی عدالت نے اپنا فیصلہ درخواست دہندگان کے حق میں سنایا تو پھر ہو سکتا ہے کہ برطانوی ارکان پارلیمان کو اس بارے میں رائے شماری میں حصہ لینا پڑے کہ اگر آرٹیکل 50 کا اطلاق کیا بھی جائے گا تو کب۔
اس طرح ٹریزا مے کی حکومت کے لیے بریگزٹ کا عمل نہ صرف مزید التوا کا شکار ہو جائے گا بلکہ اصولی طور پر یہ بھی ممکن ہے کہ پارلیمان کثرت رائے سے یہ عمل سرے سے روک ہی دے۔ وہ اس طرح کہ یا تو اس بارے میں پارلیمانی رائے شماری میں دانستہ تاخیر کر دی جائے یا پھر ارکان پارلیمان آرٹیکل پچاس کے عملی استعمال کے خلاف رائے دے دیں۔
اگر فیصلہ برطانوی حکومت کے حق میں گیا، تو موجودہ حکومت کی پوزیشن کچھ مضبوط ہو جائے گی۔ وزیر اعظم ٹریزا مے پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ ان کی حکومت کا ارادہ ہے کہ لندن کی طرف سے لزبن معاہدے کی شق نمبر 50 پر عمل درآمد کے لیے باقاعدہ کارروائی جلد از جلد بھی اگلے سال مارچ کے اواخر تک شروع کی جا سکے گی۔
لندن ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر، جو لارڈ چیف جسٹس جان تھامس اور دو دیگر سینیئر ججوں کی طرف سے سنایا جائے گا، سبھی سیاسی حلقے اور مالیاتی منڈیاں نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔