1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی سیاحت اور تجارت پر بریگزٹ کے اثرات

12 فروری 2023

بریگزٹ کے نتیجے میں 31 جنوری 2020ء کو یورپی یونین سے نکلنے کے بعد برطانوی سیاحت کا احوال، سیاحتی صنعت میں بڑھتے ہوئے اخراجات سے لیکر سستی لیبر میں کمی تک۔

https://p.dw.com/p/4NFQe
Symbolbild | Brexit | Millionen EU-Bürger wollen in Großbritannien bleiben
تصویر: Nicolas Economou/NurPhoto/picture alliance

23 جون، 2016 کو برطانوی ووٹرز نے ایک خصوصی ریفرنڈم میں  برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج  کے حق میں فیصلہ دیا جس پر 31 جنوری 2020ء عملدرآمد ہو گیا۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے اس فیصلے سے امیگریشن، تجارت اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں پر دور رس اثرات پڑے۔ جن میں سے بہت سے طویل المدتی نتائج ابھی تک مکمل طور پر سامنے نہیں آئے جو ممکن ہے آنے والے مہینوں اور سالوں میں مزید واضح ہوجائیں۔

برطانیہ میں داخلے کی پوسٹ بریگزٹ پالیسی

یورپی یونین کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے اب برطانیہ میں چھٹیاں گزارنا قدرے مشکل ہو گیا ہے۔ بریگزٹ سے قبل، یورپی یونین میں شامل کسی بھی ملک کا قومی شناختی کارڈ رکھنے والا کوئی بھی فرد آزادانہ طور پر برطانیہ میں داخل ہو سکتا تھا۔ لیکن یکم اکتوبر 2021ء کے بعد سے، اب صرف ان ممالک کے پاسپورٹ رکھنے والوں کو یہ سہولت حاصل ہے۔

خیال رہے کہ اندازوں کے مطابق یورپی یونین کے شہریوں کی ایک تہائی تعداد کے پاس پاسپورٹ نہیں ہیں۔

سیاحوں کی تعداد میں کمی

برطانوی سیاحتی اتھارٹی، وزٹ بریٹین کی طرف سے گزشتہ نومبر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یورپی شہریوں کی جانب سے 2022ء میں، برطانیہ کے دوروں کی تعداد میں 2019ء کے مقابلے میں تقریباً ایک تہائی کمی آئی ہے- البتہ یہ کہنا شاید درست نہیں ہو گا کہ اس کمی کی لازمی وجہ صرف بریگزٹ ہی ہے کیونکہ 2021ء میں کورونا وائرس نے بھی عالمی سفر اور سیاحت کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا تھا۔ 

Symbolbild | Englische Pfund und finnischer Pass
یورپی یونین کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے اب برطانیہ میں چھٹیاں گزارنا قدرے مشکل ہو گیا ہے۔تصویر: Heikki Saukkomaa/Lehtikuva/dpa/picture alliance

تاہم وزٹ بریٹین کے ہی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال اپریل، مئی اور جون میں جن 80 لاکھ افراد نے برطانیہ کا دورہ کیا ان میں سے تقریباً 50 لاکھ افراد یورپی یونین کے شہری تھے۔ اور اس تعداد میں 2019ء میں اسی مدت کے دوران برطانیہ جانے والوں سے زیادہ فرق نہیں ہے۔

مختصراً، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا سفر کے اس مثبت رجحان کا تعلق کووِڈ سفری پابندیوں کے خاتمے سے ہے یا یہ بریگزٹ کے بعد آنے والے سفری قوانین کی بڑی حد تک قبولیت کا نتیجہ ہے۔

ہوٹلوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، سیاحت میں رکاوٹ 

برطانیہ میں چھٹیاں گزارنے کے انتظامات کرنے والے بعض یورپی ٹور آپریٹرز کے مطابق برطانیہ کے شعبہِ مہمان نوازی کی جانب سے ہوٹلوں کے اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے سیاحوں کوخاصی مشکل کا سامنا ہے۔ 

ایک جرمن کاروباری شخص نے (جو  اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے) ڈی ڈبلیو سے بات چیت کے دوران بتایا کہ بریگزٹ کے بعد سے برطانیہ کی جانب سے ہوٹل کے کمروں اور مہمان نوازی کی دیگر خدمات کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے اسے اپنی سروسز کی قیمتیں بھی بڑھانا پڑی ہیں۔ 

یہ صاحب 1990ء کی دہائی کے وسط سے جرمن، آسٹریائی اور سوئس سیاحوں کے لیے اسکاٹ لینڈ میں چھٹیاں منانے کا اہتمام کرتا آئے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''برطانوی ہوٹلوں نے اپنی قیمتیں دوگنا، یہاں تک کہ تین گنا تک بڑھا دی ہیں۔ چار یا پانچ سال پہلے، اگر دو لوگوں کو 10 دن کی رہائش پر چھ سے آٹھ ہزار یورو خرچ کرنا پڑتے تھے تو اب اسی ٹور پیکج کے لیے انہیں دوگنا زیادہ رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔‘‘ 

لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس کے محققین کے مطابق بریگزٹ کی وجہ سے یورپی ممالک کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے درکار کاغذی کارروائی میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی وجہ سے مہمان نوازی کی خدمات اور سیاحتی پیشکشوں کی لاگت کو بھی بڑھانا پڑا ہے۔ البتہ اس ضمن میں بھی توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات جیسے دیگر عوامل کو پسِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ کیونکہ ان کی وجہ سے بھی قیمتوں اور مہنگائی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ 

ہوٹلوں، شراب خانوں اور ریستوراںوں میں عملے کی کمی 

آکسفورڈ یونیورسٹی کی مائیگریشن آبزرویٹری کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق جون 2019ء اور جون 2021ء کے درمیان برطانوی مہمان نوازی کے شعبے میں کام کرنے والے یورپی یونین کے ملازمین کی تعداد میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

England | Kellnerin in einem Restaurant in London
جون 2019ء اور جون 2021ء کے درمیان برطانوی مہمان نوازی کے شعبے میں کام کرنے والے یورپی یونین کے ملازمین کی تعداد میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔تصویر: Stefan Rousseau/empics/picture alliance

برطانوی مہمان نوازی کے شعبے میں عملے کی کمی نے سیاحت پر مزید برا اثر ڈالا ہے۔ کورونا وبا سے متعلق لاک ڈاؤن نے ہوٹلوں کے بہت سے کارکنوں، خانساماؤں، سرورز، ویٹرز، اور دیگر عملے کو دوسری صنعتوں میں ملازمتیں تلاش کرنے پر یا واپس اپنے آبائی ممالک جانے پر مجبور کیا۔ ماضی میں برطانوی سیاحتی شعبے کا زیادہ تر انحصار، یورپی یونین کے ممالک سے آئے کم اجرت والے ورکرز پر ہوا کرتا تھا مگر اب ایسا نہیں رہا۔ 

بریگزٹ، یورپی مزدور اور نئے امیگریشن قوانین

بریگزٹ کے بعد لاگو ہونے والے امیگریشن کے نئے قوانین نے یورپی یونین کے کم ہنر مند شہریوں کے لیے برطانوی لیبر مارکیٹ میں داخل ہونا بہت مشکل بنا دیا ہے۔ 

مزید برآں چونکہ یورپی کارکنوں کے لیے یورپ سے برطانیہ کے درمیان نقل و حرکت کی آزادی محدود ہو گئی ہے لہٰذا وہ ادارے جو کبھی اطالوی، ہسپانوی اور یونانی مزدوروں کو ملازمت دیتے تھے ان کے لیے اب ایسا کرنا ایک انتہائی پیچیدہ عمل بن گیا ہے۔ اس لیے کم اجرت پر کام کرنے والے یورپی مزدور اب با آسانی برطانوی لیبر مارکیٹ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ جس کی وجہ سے برطانوی شعبہِ مہمان نوازی پر خاصے برے اثرات پڑے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے ایک حالیہ مضمون کے مطابق، عملے کی کمی کی وجہ سے بہت سے برطانوی ریستورانوں کو کام کے اوقات کو گھٹانا پڑا ہے۔

برطانوی سیاحتی صنعت

اس ضمن میں برطانیہ کی ٹورازم ٹریڈ ایسوسی ایشن، 'یو کے ان باؤنڈ‘ کے سربراہ جوس کرافٹ نے ڈی ڈبلیو کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اب بھی یقین ہے کہ برطانیہ وزٹ، کام اور کاروبار کرنے کے لیے ایک شاندار جگہ ہے اور وہ مستقبل میں بھی برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک کے درمیان کام اور سفری دورے جاری رہنے کی امید کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ اپنی جوانی میں یہاں آتے ہیں، وہ بوڑھے ہونے تک یہاں آنا پسند کرتے ہیں، لہٰذا اس لگاؤ کی وجہ سے ان کے برطانیہ میں سرمایہ کاری کرنے اور برطانیہ کے ساتھ تجارت کرنے کے امکانات ہمیشہ رہتے ہیں۔‘‘

مجموعی طور پر جوس کرافٹ برطانیہ بطور سیاحتی مقام کے مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔

بین ریسل (ک ر/ا ب ا)