بریگزٹ کے بعد جبل الطارق پر برطانیہ کا اختیار بھی زیر بحث
25 جون 2016ابھی برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں رائے شماری کو محض چند گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ اسپین کے وزیر خارجہ نے جبل الطارق پر اپنے ملک کا حق جتا دیا۔
خیال رہے کہ جبل الطارق اسپین کی جنوبی ساحلی پٹی پر واقع ہے، درمیان میں سمندر ہے اور سمندر کے دوسری جانب مراکش ہے۔ اسپین نے سن سترہ سو تیرہ میں اسے برطانیہ کے حوالے کیا تھا تاہم کچھ عرصے بعد ہی سے وہ اسے اپنے زیر انتظام لانے کے لیے کوششیں کرنے لگا تھا۔
بریگزٹ کے مکمل نتائج سامنے آنے سے قبل ہی جبل الطارق کے شہریوں نے اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔
اسپین کے قائم مقام وزیر خارجہ ہوزے مانوئل گارسیا نے جمعے کے روز ہسپانوی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارا فارمولا کچھ یہ ہے: ایک مخصوص وقت کے لیے جبل الطارق کو برطانیہ اور اسپین کی مشترکہ تحویل میں دے دیا جائے اور اس کے کچھ عرصے بعد اس پر اسپین کا مکمل کنٹرول ہو جانا چاہیے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ہسپانوی قومی پرچم جبل الطارق کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
تینتیس ہزار افراد کی آبادی والے جبل الطارق کے مستقبل کے حوالے سے برطانیہ کے وزیر برائے یورپ ڈیوڈ لیڈنگٹن کا کہنا ہے کہ جبل الطارق برطانیہ کے ساتھ ہی رہے گا۔
''ہم کبھی کسی ایسے فارمولے کو تسلیم نہیں کریں گے، جس کے تحت جبل الطارق کو کسی دوسرے ملک کے اختیار میں دے دیا جائے۔‘‘
تاہم جمعے کے روز ایک ریفرنڈم کے تحت برطانیہ کے یورپی یونین میں نہ رہنے کے فیصلے کے بعد جبل الطارق کی صورت حال بھی پیچیدہ تر ہو گئی ہے۔ اس ضمن میں ہسپانوی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کے بعد جبل الطارق کا تنازعہ ’’دو فریقین کے درمیان ایک معاملہ رہ گیا ہے، جسے اسپین اور برطانیہ ہی حل کریں گے۔‘‘
بریگزٹ ریفرنڈم میں جبل الطارق کے شہریوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا اختیار تھا۔ یہاں چھیانوے فیصد رائے دہندگان نے برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں رائے دی تھی۔ جبل الطارق کی صورت حال بھی کم و بیش اسکاٹ لینڈ اور ویلز کی طرح کی ہے، جہاں عوام کی اکثریت نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تھی۔
اسکاٹ لینڈ کی حکومت نے برطانیہ سے علیحدگی کے حوالے سے ایک اور ریفرنڈم منعقد کرانے کا امکان ظاہر کر دیا ہے۔ یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ جبل الطارق کے عوام بھی مکمل خود مختاری یا اسپین اور یورپی یونین کے قریب رہنے کے حوالے سے فیصلہ کر سکتے ہیں یا نہیں تاہم برطانیہ اس حوالے سے فکرمند ضرور ہے۔