بغداد دھماکوں میں 150 سے زائد افراد ہلاک
25 اکتوبر 2009عراقی حکام نے بغداد کے دو خوفناک خودکش ٹرک بم حملوں کے بعد تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔ یہ دھماکے بغداد میں واقع وزارت انصاف اور بغداد میونسپل کونسل میں کئے گئے۔ اِن خوفناک دھماکوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 150 سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد پانچ سو سے زائد ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق بم دھماکوں سے قبل بارود سے لدے ٹرکوں کو جو خودکش بمبار چلا رہے تھے اُن کو باقاعدہ دیکھے جانے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ دونوں خودکش حملوں میں تقریباً ایک منٹ کا وقفہ تھا۔
عراقی حکومت کے ترجمان علی الدباغ کے مطابق اِس کارروائی کے پس پردہ القائدہ اور البعث پارٹی کے انتہاپسند یقینی طور پر ہیں اور تمام شواہد اُن کی طرف جاتے ہیں۔ عراق کے وزیر داخلہ جہاد البولانی کا کہنا ہے کہ سکیورٹی اہلکار اُن دو مشتبہ افراد کی کھوج میں ہیں جو اِن حملہ کے پس پشت متحرک تھے۔ عرب لیگ نے اِس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔ عراق کے اندر بھی سوگواریت چھائی ہوئی ہے۔
عراق کے دارالحکومت بغداد میں صبح کے وقت ہونے والے دو خودکش ٹرک بم دھماکوں کی لپیٹ میں آنے والے زخمیوں سے شہر کے ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے ہیں۔
کار بم دھماکوں کے بعد ہر طرف تباہ شدہ عمارتوں اور گاڑیوں کے ساتھ انسانی جسموں کے ٹکڑے بکھر گئے تھے۔ عمارتوں میں آگ بھی لگ گئی جس کی لپیٹ میں اندر پھنسے ہوئے زخمی بھی آ گئے۔ بم دھماکوں کے بعد افراتفری کا یہ عالم تھا کہ ہر کوئی بھاگنے اور محفوظ مقام کی تلاش میں تھا اور اِس دوران شہر کی تقریباً اہم سڑکوں پر ٹریفک جام ہو گئی۔ اِس کے باعث امدادی کارروائیوں میں خاصی رکاوٹ پیدا ہو ئی۔ ایمبیولینس گاڑیوں کو بھی زخمیوں کو ہسپتال منتقلی میں پریشانی کا سامنا رہا۔
تباہ شدہ مقامات سے ملبہ ہٹانے کا سلسلہ جاری ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ابھی کئی اور لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ بغداد کے چاروں بڑے ہسپتالوں، ابن نفیس، الکرامہ، یرموک اور میڈیکل سٹی میں ہنگامی حالت نافذہے۔ پولیس خود کُش بمباروں کی کارروائی کے پہلو پر بھی تفتیش کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نوری المالکی نے بم دھماکوں کے مقامات کا فوری طور پر دورہ بھی کیا اور سرکاری اہلکاروں کو خصوص ہدایات بھی جاری کی لیکن کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ عراق کے اندر سیکیورٹی کی مجموعی صورت حال میں بہتری، القائدہ اور عراق کی شیعہ حکومت کے مخالفین کو برداشت نہیں ہو رہی اور یہ اُسی کیفیت کا نتیجہ اور اگست میں وزارت خارجہ و خزانہ کی عمارتوں میں ہونے والے بم دھماکوں کا تسلسل ہے۔ اُنیس اگست کو عراقی دارالحکومت کی اہم عمارتوں میں ہونے والے خوفناک بم دھماکوں میں ایک سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اِس کے علاوہ ایسی پر تشدد کارروائیوں سے آنے والے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنا بھی مقصود ہے۔ عراق میں سولہ جنوری کو انتخابات ہونے جارہے ہیں۔
اِس سلسلے میں انتخابی قوانین میں ترمیم کا معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے اوربم دھماکوں کے دِن یعنی اتوار کی سہ پہر کو ایک اہم میٹنگ کا انعقاد بھی تھا۔ کچھ اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اِن دھماکوں سے عراق مخالف قوتیں انتخابی عمل کو مؤخر کروانا چاہتی ہیں تا کہ ملک کے اندر جمہوری اقدار کو کسی طور فروغ حاصل نہ ہو سکے۔
عراق کی زمینی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل علی غائدان مجید نے بھی متاثرہ مقامات کا دورہ کرنے کے بعد ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے تناظر میں عراق کے اندر دہشت گردانہ واقعات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اُن کے خیال میں الیکشن اور بعد میں تبدیلی حکومت کے دوران اِس طرح کی کارروائیوں میں اضافے کا امکان ہے اور عراق کے اندر سلامتی کی مجموعی صورت حال اگلے سال کے وسط میں ہر صورت میں بہتر ہونا شروع ہو جائے گی۔
گزشتہ کچھ عرصے سے عراق کے طول و عرض میں پرتشدد واقعات میں خاصی کمی آ چکی ہے لیکن عسکریت پسند، ایک خاص تسلسل کے ساتھ اہم مقامات پر اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ وہ خاص طور پر بڑے شہروں کو اب نشانہ بنا رہے ہیں۔ بغداد اور موصل سمیت دوسرے شہروں میں ہونے والے بم دھماکوں میں درجنوں ہلاک ہو چکے ہیں۔