بغیر مقدمے کے کئی سال جیل میں، سابق خاتون پروفیسر کی ضمانت
6 اپریل 2024بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ناگ پور یونیورسٹی کی انگریزی زبان و ادب کی سابق پروفیسر شوما سین کی عمر اس وقت 66 برس ہے۔ انہیں 2018ء میں ملک میں دہشت گردی کی روک تھام کے ان سخت قوانین کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، جن پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیمیں شدید تنقید کرتی ہیں۔
بھارت میں ماؤ نواز باغیوں کے حملے میں سکیورٹی فورسز کے متعدد جوان ہلاک
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے بقول شوما سین کا تقریباﹰ چھ برس تک ان کے خلاف کسی بھی قانونی یا عدالتی کارروائی کے بغیر حراست میں رکھا جانا اس امر کا ایک اور تشویش ناک ثبوت ہے کہ بھارت میں انسداد دہشت گردی کے بہت کڑے قوانین کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔
تشدد پر اکسانے کا الزام
شوما سین کو 15 دیگر سرگرم کارکنوں اور ماہرین تعلیم کے ساتھ ان الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ ملک میں ذات پات اور نسل کی بنیاد پر قائم مختلف سماجی گروپوں کے مابین تشدد کو مبینہ طور پر ہوا دے رہے تھے۔
ان 16 گرفتار شدگان میں ایک مسیحی پادری سٹین سوامی بھی شامل تھے، جن کا گرفتاری کے تین سال بعد جیل میں ہی 84 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا۔
ان تمام 16 سرکردہ شخصیات کو بھارت میں دہشت گردی کی روک تھام کے ذمے دار اعلیٰ ترین ادارے قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے گرفتار کیا تھا۔ اس ایجنسی کا دعویٰ تھا کہ شوما سین اور دیگر زیر حراست افراد کے ماؤ پسند باغیوں کی انتہائی بائیں بازو کی مسلح تحریک کے ساتھ مبینہ رابطے تھے۔
بھارت نے ماؤ نواز علاقے کا اولین سروے مکمل کر لیا
بھارت میں ان ماؤ نواز باغیوں کو عرف عام میں نکسل باغی کہا جاتا ہے اور نئی دہلی میں مرکزی حکومت کو ملک کے مشرقی اور وسطی حصوں میں کئی عشروں سے ان باغیوں کی مسلح مزاحمت کا سامنا ہے۔ یہ باغی زیادہ تر ملک کے ان جنگلاتی علاقوں میں سرگرم ہیں، جہاں زیادہ تر آبادی کا تعلق مقامی قبائل سے ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینج کا فیصلہ
شوما سین کی ضمانت کی منظوری دیتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کے ایک دو رکنی بینچ نے جمعہ پانچ اپریل کو اپنے فیصلے میں کہا، ''یہ اپیل دائر کرنے والی خاتون (شوما سین) کو اب جیل میں تقریباﹰ چھ سال ہو گئے ہیں۔ ان کی عمر 66 برس سے زائد ہے اور ان پر آج تک کوئی بھی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔‘‘
بھارت: ماؤ نواز باغیوں کے نام پر عام لوگوں کو قتل کیا گیا
بھارتی سپریم کورٹ کے اس بینچ نے کہا، ''اگر درخواست دہندہ سے منسوب سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے، یا ان بیانات کا بھی جو گواہوں نے دیے یا جن سے درخواست دہندہ کے خلاف نتائج اخذ کیے گئے، تو بھی یہ بات عملاﹰ ثابت نہیں ہوتی کہ اپیل کنندہ نے کوئی دہشت گردانہ کارروئی یا اس کی کوئی کوشش کی تھی۔‘‘
بغیر مقدمے کے غیر معینہ عرصے تک حراست کا متنازعہ قانون
شوما سین کے ساتھ گرفتار کردہ ایک اور خاتون کارکن کا نام سدھا بھردواج تھا۔ ان کی عمر بھی اس وقت 60 برس سے زیادہ تھی، جب 2021ء میں ممبئی ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔
ماؤ نواز باغیوں کا مبینہ حملہ، سولہ بھارتی کمانڈو ہلاک
مقامی مسیحی پادری سٹین سوامی، شوما سین اور سدھا بھردواج کو بھارتی حکام نے اس قانون کے تحت مسلسل قید میں رکھا ہوا تھا، جس کا نام ''غیر قانونی سرگرمیوں کے تدارک کا قانون‘‘ یا UAPA ہے۔ اس ایکٹ کے تحت کسی بھی ملزم کو عدالتی کارروائی کے بغیر غیر معینہ عرصے تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
بھارت کے Unlawful Activities Prevention Act پر تنقید کرنے والے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت گرفتار کیے گئے کسی بھی ملزم کے لیے اپنی ضمانت کروا سکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
ماؤ نوازوں، سکیورٹی فورسز کے مابین پسے ہوئے بھارتی قبائلی
ان ناقدین کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ بھارت میں ہندو قوم پسند وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اس متنازعہ قانون کو اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
خود بھارتی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق یو اے پی اے نامی اس قانون کے تحت ہر سال 1000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ان میں سے 100 سے بھی کم کو کسی عدالتی کارروائی کے نتیجے میں سزائیں سنائی جاتی ہیں۔
م م / ش ر (اے ایف پی)