بلاگرز کے لیے سزائے موت کا مطالبہ، ڈھاکہ میں مظاہرہ
6 اپریل 2013سیکولر بلاگرز پر اسلام مخالف تحریریں لکھنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ ہفتے کو ہونے والا یہ مظاہرہ سیکولر حلقوں اور بڑی اسلامی پارٹی جماعتِ اسلامی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ سیکولر حلقوں نے بھی ہفتے کو ڈھاکہ میں قدرے چھوٹے مظاہرے کیے ہیں۔
اس جماعت کے رہنماؤں کو 1971ء کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کے مرتکب ہونے کے الزمات کا سامنا ہے اور ان کے خلاف مقدمے چل رہے ہیں۔ جنگی جرائم کے ایک ٹریبونل کی جانب سے جماعت اسلامی کے رہنما دلاور حسین کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ 1971ء میں وہ قتل، آتش زنی اور آبروریزی سمیت دیگر جنگی جرائم میں ملوث رہے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ڈھاکہ کی ریلی میں شرکاء کی تعداد ایک لاکھ تھی۔ وہ ’اللہ اکبر‘ اور ’سیکولر بلاگرز کو پھانسی‘ دو کے نعرے لگا رہے تھے۔
منتظمین نے اس ریلی کو لانگ مارچ قرار دیا اور انہوں نے شرکاء کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد بتائی ہے۔ متعدد افراد دُور دراز کے دیہات سے سفر کر کے اس میں شریک ہوئے۔
اس ریلی کا اہتمام حفاظتِ اسلام نامی ایک مذہبی گروہ نے تیرہ نکاتی اپنے مطالبے کی حمایت میں کیا، جس میں توہین مذہب کا قانون بنانے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
سیکولر حلقوں نے جمعے کو22 گھنٹے طویل ملک گیر ہڑتال کی کال دی تھی، جس کے بعد مخالف گروپوں کے درمیان تصادم کے ڈر سے نجی ٹرانسپورٹ بند کر دی گئی تھی۔ اس صورتِ حال میں ڈھاکہ ملک کے دیگر حصوں سے تقریباﹰ کٹ کر رہ گیا تھا۔
حفاظتِ اسلام نے حکومت پر الزام لگایا کہ ان کی ریلی کو دارالحکومت پہنچنے سے روکنے کے لیے ٹرانسپورٹ بند کی گئی۔ دوسری جانب سیکولر حلقوں کا کہنا ہے کہ اس ریلی کا بنیادی مقصد جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے رکوانا ہے۔
اسلام پسندوں کے دباؤ کے نتیجے میں چار بلاگرز کو رواں ہفتے انٹرنیٹ پر اسلام مخالف تحریروں کے ذریعے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزام پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کے خلاف احتجاج میں آٹھ بلاگ ویب سائٹس بند کر دی گئی تھیں۔ زیر حراست بلاگرز کے سیکولر حامیوں نے کریک ڈاؤن کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے اسلام پسندوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔
ng/km (AFP, dpa)