بلوچستان میں فرقہ ورانہ حملے میں تیرہ شیعہ شہری ہلاک
4 اکتوبر 2011کوئٹہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ حملہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کیا جانے والا اپنی نوعیت کا دوسرا حملہ ہے۔ ایک اعلیٰ پولیس اہلکار حامد شکیل نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ حملہ ایسے مسلح افراد نے کیا، جو ایک پک اپ میں سوار جائے واردات تک پہنچے تھے۔
حملہ آوروں نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مضافات میں اس بس کو روکا اور پھر مسافروں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس حملے میں 13 مسافر ہلاک اور پانچ دیگر زخمی ہو گئے۔ پولیس ذرائع کے بقول اس بس کے مسافر کوئٹہ سے واپس جا رہے تھے اور ان کا تعلق زیادہ تر ہزارہ برادری کے شیعہ مسلمانوں سے تھا۔
ان اطلاعات کے برعکس بس کے زخمی ہونے والے مسافروں میں سے ایک حسین نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ کوئٹہ سے قریب 45 منٹ کی مسافت پر اس بس کے مسافروں میں سے ہی دو افراد نے کھڑے ہو کر ڈرائیور سے رکنے کے لیے کہا اور پھر انہوں نے باقی مسافروں پر بے دریغ فائرنگ کرنا شروع کر دی۔
مسافروں میں سے دس موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ باقی تین نے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔ بس میں مجموعی طور پر قریب بیس افراد سوار تھے۔ زخمیوں کو بعد میں اسی بس میں ایک قریبی ہسپتال پہنچا دیا گیا، جہاں اس خونریز کارروائی پر مشتعل مظاہرین نے اس بس کو خالی کرا کے اسے آگ لگا دی۔
اس حملے کے بعد ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک رہنما عبدالخالق نے پاکستان کے ایک نجی ٹیلی وژن چینل کو بتایا کہ پاکستان میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں اور ’ہمیں بربریت پسند عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے‘۔
پاکستان کے اسی صوبہ بلوچستان میں بیس ستمبر کو بھی مستونگ کے ضلع میں زیارتوں کے لیے ایران جانے والے شیعہ زائرین کی ایک بس پر ایسا ہی ایک خونریز حملہ کیا گیا تھا، جس میں کم ازکم 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
کوئٹہ کے مضافات میں آج کے اس حملے کی منگل کے روز قبل از دوپہر تک کسی بھی مسلح گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔ پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے شیعہ مسلمانوں پر خونریز حملوں میں واضح طور پر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امتیاز احمد