بلوچستان میں ٹارگٹڈ آپریشن کے مفاہمتی عمل پر اثرات
9 ستمبر 2013ماضی کی طرح بلوچستان کی حالیہ مخلوط حکومت نے بھی اپنے قیام کے اوائل میں ہی صوبے کے ناراض بلوچ رہنماوں اور آزادی کے لیے بر سر پیکار کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اس حکومتی پیشکش کا ابھی کوئی مثبت جواب سامنے آیا ہی نہیں تھا کہ مرکزی حکومت کی ہدایت پر باغی تنظیموں کے خلاف ایک اور ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز کر دیا گیا۔
اس آپریشن سے امن و امان کی صورتحال میں مجموعی طور پر تو کسی حد تک بہتری واقع ہوئی تاہم اس اقدام سے صوبائی حکومت کی جانب سے شروع کیا گیا مفاہمتی عمل پھر تعطل کا شکار ہوگیا ہے، جسے مبصرین نے وفاق اور بلوچستان کی موجودہ حکومت کے درمیان رابطوں کے فقدان سے تعبیر کیا ہے۔
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے مطابق مفاہمتی عمل اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک حالات کو سازگار نہیں بنایا جاتا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا، ’’بلوچستان ابھی تک جنگی حالات میں ہے، مجھے نہیں لگتا کہ ان جنگی حالات سے کسی نے ہمیں اب تک نکالنے کا سوچا ہے یا کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے، صرف اعلانات سے معاملات حل نہیں ہو سکتے، اسی حکومت میں اب بھی لاشیں گرائی جا رہی ہیں۔ ابھی بھی لوگ اغواء کئے جا رہے ہیں، مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں اور ایک ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ ہر دوسرا شخص خوف کا شکار ہے ان حالات میں مفاہمت کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔‘‘
بلوچستان میں روان سال جولائی کے مہینے میں شروع کیے گئے ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران اب تک 160 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ سیکورٹی فورسز اور مزاحمتی تنظیموں کے درمیان مختلف علاقوں میں ہونے والی حالیہ جھڑپوں کے نتیجے میں ان تنظیموں کے 2 درجن سے زائد کارکن بھی ہلاک ہوچکے ہیں، جن کے قبضے سے سیکورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا ہے۔
بلوچستان کی بعض بلوچ قوم پرست جماعتوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران 47بلوچ سیاسی کا رکنوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں، جن کا ذمہ دار وہ سیکورٹی فورسز کو سمجھتے ہیں تاہم دوسری جانب حکومتی سطح پران تمام دعوؤں کو مسترد کیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے صدر قاسم خان سوری بھی سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے معالات کے حل کے حوالے سے حکومتی کردار ابہام کا شکار ہے کیونکہ بلوچستان کی موجودہ حکومت ایک جانب کالعدم گروپوں سے مذاکرات کی خواہش مند ہے اور دوسری طرف مرکزی حکومت ان مسائل کو افہام و تفہیم کی بجائے طاقت کے استعمال سے حل کرنا چاہتی ہے جو کہ ان کے بقول غیر معقول طریقہ ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے قاسم خان سوری نے کہا ’’میں نہیں سمجھتا کہ حکومت بلوچستان کے معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہتی ہے کیونکہ اب تک کوئی موئثر اقدام نہیں اٹھا یا گیا ہے۔ وہ لوگ جو باغی ہیں اور حکومت کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو اعتماد میں لیا جائے جب تک انہیں مطمئن نہیں کیا جائے گا ان کا احساس محرومی دور نہیں ہو گا۔ یہ مذاکرات کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں؟ طاقت کے زور پر تو کوئی معاملہ حل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کبھی حل ہوا ہے۔
مبصرین کے مطابق بلوچستان کی حکومت اس وقت تک بامقصد مذاکرات میں کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک مرکزی حکومت اس حوالے سے عملی اقدامات پر صوبائی حکومت کو معاونت فراہم نہں کرتی کیونکہ وفاق کے ماتحت اداروں کی کاروائیوں سے ہمیشہ صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور قیام امن کے لیے ہونے والی کوششوں پر بھی ان اقدامات کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں بھی کالعدم باغی تنظیموں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں تھیں اور ان مسلح تنظیموں نے غیر معینہ مدت تک حکومت مخالف تحریک معطل کرنے کا بھی اعلان کیا تھا تاہم بعد میں مثبت پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے حکومت مخالف تحریک دوبارہ شروع کر دی گئی تھی۔