بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل میں مسلسل تاخیر پریشان کن
16 جولائی 2013حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے اشتراک سے بننے والی بلوچستان کی نئی مخلوط حکومت یوں تو اپنے قیام کے دن سے ہی قائد ایوان کے انتخاب کے معاملے پر اندرونی اختلافات کا شکار رہی تاہم یہ تینوں حکومتی جماعتیں کئی دن گزر جانے کے باوجود ابھی تک اس بات پر متفق نہیں ہو سکیں کہ کابینہ میں کس جماعت کے پاس کتنی وزارتیں ہوں گی۔
یہی وجہ ہے کہ کابینہ کی تشکیل کا معاملہ اب تک تعطل کا شکار ہے۔ مخلوط حکومت میں شامل بلوچستان کی پشتون قوم پرست جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور واحد صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال کہتے ہیں کہ حکومت نے کابینہ کی تشکیل کا معاملہ اب تک اس لیے طے نہیں کیا کیونکہ اس حوالے سے باقاعدہ طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا، ‘‘ہماری مخلوط حکومت میں شامل پارٹیاں وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہیں اور سیاسی جماعتوں نے ناگزیر وجوہات کی بنا پر اس حوالے سے اب تک کوئی اجلاس بھی منعقد نہیں کیا ہے۔ ہم مل بیٹھ کر یہ معاملات حل کریں گے۔ اٹھارویں ترمیم آخری ترمیم نہیں ہے۔ اب بھی لوگوں کی شکایات ہیں۔ قوموں کی شکایات ہیں۔ یہ ہماری فیڈریشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقیقت پسندانہ آئین بنائے اور فیڈریشن کی جتنی بھی اکائیاں ہیں، انہیں اس حوالے سے امادہ کیا جائے۔‘‘
بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) اس وقت صوبائی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہے۔ تاہم وزیر اعلیٰ اور گورنر کے عہدے ان کی اتحادی جماعتوں نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے پاس ہیں۔ سیاسی امور کے تجزیہ کار ندیم خان کہتے ہیں کہ بلوچستان میں صوبائی کابینہ کی عدم تشکیل کی بنیادی وجہ وزارتوں کی تقسیم کے معاملے پر وہ اختلافات ہیں جن کے حل پر اب تک کوئی اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘‘کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے سب سے اہم اختلاف یہ ہے کہ ہر جماعت یہ چاہتی ہے کہ اسے زیادہ اور اہم وزارتیں دی جائیں اور خاص کر نون لیگ کا یہ مطالبہ ہے کہ کابینہ میں اس کے وزیروں کی تعداد زیادہ ہو کیونکہ صوبائی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود اسے نہ تو وزیر اعلیٰ کا عہدہ ملا ہے اور نہ ہی گورنر کا۔ اس لیے وہ کابینہ میں اپنے لیے بڑا اور اہم حصہ چاہتے ہیں۔‘‘
رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ
ادارت: عصمت جبیں