بلوچستان کا سرداری نظام، تاریخ کے آئینے میں
11 جولائی 2021بلوچستان کی موجودہ صورتحالکو سمجھنے کے لیے آئیے اس کا کچھ پس منظر جانتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بلوچ سامی النسل عرب ہیں، جن کا تعلق دجلہ و حلب کی درمیانی وادیوں سے ہے۔ اگرچہ پروفیسر عزیز محمد بگٹی کی کتاب ''بلوچستان، شخصیات کے آئینے میں‘‘ کے پیش لفظ میں نواب اکبر بگٹی البتہ اس دعوے کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ''بلوچوں کی نسلی ابتدا پردۂ اخفا میں ہے۔ ان کی روایتی دستاویزی تاریخ 12 ویں صدی میں سردار جلال خان سے شروع ہوتی ہے، جن کے 44 قبیلے بعد ازاں سیستان، بھمبور، مکران اور بندر عباس میں جا بسے۔‘‘
سرداری نظام کا آغاز کب ہوا؟
تاریخی حوالہ جات کے مطابق 1876ء کے اوائل میں بلوچستان میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت اور حقارت کے باعث شورش کا آغاز ہوا تو رابرٹ گروس سنڈیمن کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بلوچستان بھیجا گیا۔ بلوچ اگرچہ انگریزوں کے ظلم و ستم سے تنگ تھے مگر آپس میں بھی متحد نہیں تھے۔ رابرٹ سنڈیمن نے بلوچی قبائل کی لڑائیوں، سماجی کمزوریوں اور اقتصادی بدحالی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچ قبائل میں معاہدہ کروایا جسے 'معاہدۂ مستونگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت تمام سردارانِ قبائل نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خان بلوچ (چیف) اور سرداران ِ قبائل کے درمیان تنازعے یا جھگڑے کی صورت میں ثالث یا منصف حکومتِ برطانیہ ہو گی۔ یوں بلوچ عملاﹰ انگریزوں کے زیر تسلط آ گئے اور قبائلی سردار علیحدہ انتظامی اکائی بن گئے۔
1887ء میں یہاں ایک حصے میں برٹش بلوچستان قائم کیا گیا، جس کا مرکز کوئٹہ تھا جبکہ دوسرے حصے کا مرکز قلات تھا مگر اس کے اصل حاکم بھی خان آف قلات نہ تھے بلکہ رابرٹ سنڈیمن کا ہی حکم چلتا تھا۔ سنڈیمن نے اس دور میں بلوچستان کے سماجی اور انتظامی معاملات میں کچھ ایسی تبدیلیاں کیں، جن کے اثرات ہم 2021ء تک محسوس کرتے ہیں۔
سنڈیمن کی لڑاؤ اور حکومت کرو پالیسی کے اثرات
بلوچ سردار عملاﹰ خان آف قلات کے دائرہ کار سے نکل کر انگریز پولیٹیکل ایجنٹس کے ماتحت ہو گئے تھے۔ حریف سرداروں کی سرپرستی کر کے انہیں مراعات دی جاتیں اور جونہی کسی سردار کے سر سے رابرٹ سنڈیمن کا ہاتھ اٹھتا اس کی سرداری ختم ہو جاتی۔ معروف تاریخ دان رائے بہادر ہتو رام اپنی کتاب 'تاریخِ بلوچستان‘ میں لکھتے ہیں، ''مقامی فورس بنا کر اسے لیوی کا نام دیا گیا تھا۔ لیوی میں ملازمتیں، ماہانہ وظائف اور دیگر مراعات دےکر بلوچ حاکمین کو اس قدر خود مختار کر دیا گیا تھا کہ شادی بیاہ سے ملازمت اور تنخواہوں تک کے فیصلے یہی سردار کرتے تھے۔ بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں یہ رواج کسی نہ کسی صورت میں آج تک قائم ہے۔‘‘
ہتو رام مزید لکھتے ہیں، ''برطانوی راج تک پولیٹیکل ایجنٹس کی خوشامد کر کے اور ان کی لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کا حصہ بن کر بلوچ سردار حکمرانی کرتے رہے۔ قیام ِ پاکستان کے بعد یہ سیاست کے گلی کوچوں سے گزر کر حکومت کے ایوانوں تک پہنچ گئے اور ایک قبیلے کے بجائے پورے بلوچستان یا اپنے علاقے کے قدرتی وسائل کے مالک بن بیٹھے۔‘‘
رابرٹ سنڈیمن کی تعلیمی اصطلاحات
رابرٹ سنڈیمن نے جہاں انتہائی ہوشیاری کے ساتھ سرداروں کو مراعات اور اختیارات دے کر اپنے قبیلے کے سیاہ سفید کا مالک بنایا، وہیں ایک اچھا کام یہ بھی کیا کہ تمام سرداروں اور نوابوں کے بیٹوں کے لیے تعلیم مفت اور لازمی قرار دے دی۔ لاہور میں ایچی سن کالج کے قیام کے بعد بلوچ سرداروں کے بچوں کو بھی اس درسگاہ میں جگہ دی گئی۔ نواب اکبر بگٹی، فاروق احمد خان لغاری سمیت کئی دیگر اہم بلوچ سردار ایچی سن کالج لاہور کے فارغ التحصیل تھے۔ یہاں انہیں آداب ِحکمرانی سکھائے جاتے اور منتخب امیدواروں کو ڈیرہ دھون ملٹری اکیڈمی بھی بھیجا جاتا تھا۔
بگٹی، لغاری، مینگل اور مری قبائل کے پڑھے لکھے ان سرداروں نے بلوچستان میں تو تعلیم کو عام کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیے مگر اتنا ضرور ہوا کہ ان کی دیکھا دیکھی دیگر نوجوان بھی تعلیم کی طرف مائل ہوئے اور بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں اب خواتین کی تعلیم کا رجحان بھی عام ہو رہا ہے۔
سرداری نظام کے خلاف شورشوں کا آغاز کب ہوا ؟
بلوچستان میں سرداروں کے حد سے بڑھتے اختیارات اور انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کی خلاف چند بلوچ نوجوانوں نے مل کر 1920ء میں ایک خفیہ تنظیم قائم کی، جسے 1929ء میں باقاعدہ سیاسی جماعت کی صورت میں متعارف کروایا گیا۔ اس کا نام 'انجمنِ اتحاد بلوچ و بلوچستان‘ رکھا گیا اور اس کی قیادت بلوچ انقلابی لیڈر یوسف عزیز مگسی کرتے تھے، جن کی شعلہ بیانی اور انقلابی پیغام نے منتشر بلوچوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ بدقسمتی سے یوسف عزیز مگسی 1935ء میں کوئٹہ میں آنے والے ہولناک زلزلے میں ہلاک ہو گئے۔ ان کی وفات کے بعد کچھ دیگر تحاریک جیسے انجمن ِ اتحاد بلوچاں، قلات سٹیٹ پارٹی وغیرہ اپنے طور پر نظام کے خلاف آواز بلند کرتی رہیں۔
قدرتی وسائل سے استفادہ
خان بلوچ میر اعظم خان بلوچستان کی تاریخ پر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں،''حکومت برطانیہ نے 1917ء میں برسیہ آئل کمپنی کو 14 سال کے لیے پٹرول کی پیداوار والے تمام ریاستی علاقے لیز پر دیے تھے جو تمام وسائل پر قبضہ جما کر ریاست کو دو ہزار روپے سالانہ پر ٹرخا دیتی تھی۔ اس معاہدے کو 1937ء میں منسوخ کر دیا گیا اور 1945ء میں یہ ٹھیکہ 'بی او سی‘ کو دیا گیا، جسے بعد ازاں حکومت پاکستان نے منسوخ کیا۔‘‘
اس حوالے سے ایک اہم کام 1976ء میں ہوا، جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر، تعلیم، صحت اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کرنا چاہا تو چند بلوچ سردار اس کے خلاف مزاحم ہو گئے کیونکہ ان علاقوں کی ترقی سے ان کے اپنے راج کے خاتمے کا خدشہ تھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے 1976ء میں سرداری نظام کے خاتمے کا ایکٹ پاس کیا گیا، جس کے بعد بلوچستان سے مسلح جدوجہد اور آزادی کی تحریکوں کا آغاز ہوا جو اب تک پوری شدت سے جاری ہے اور جن میں غیر ملکی مداخلت و معاونت کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے چند دن پہلے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات پر آمادہ ہیں۔
تبدیلی یا ارتقاء۔ بلوچ دانشور کیا کہتے ہیں؟
بلوچ دانشوروں کے مطابق پچھلے 10 سے 15 سال کے دوران بلوچستان کے سماجی و سیاسی منظر نامے پر بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، جس میں تعلیم و شعور کے اضافے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پہلے بلوچ سردار عوام پر حکومت کرتے تھے، اب انہیں اقتدار تک پہنچنے کے لیے عوام سے ووٹ مانگنا پڑتا ہے۔ فی الوقت مقامی سرداروں اور حکومت کے معاشی انقلاب کے حامیوں کے درمیان ایک جنگ جاری ہے، جس میں غریب طبقہ پس رہا ہے اور عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے معروف دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری کہتے ہیں، ''بلوچ سردار پہلے سڑکوں کو تباہی کا ذریعہ سمجھتا تھا۔ موجودہ دور میں جب اپنے علاقے سے معدنیات نکلتی دیکھتا ہے تو سڑک مانگتا ہے۔ جس شان سے وہ عوام پر راج کرتا تھا وہ اس سے نیچے آنے پر تیار نہیں مگر عوام کا معیارِ زندگی اب تبدیل ہو رہا ہے، لوگ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا سیکھ گئے ہیں۔ یہ ارتقائی عمل کا حصہ ہے کہ جس شے کی طلب ختم ہونے لگے اسے معدوم ہونا پڑتا ہے، کچھ یہی حال آج بلوچ سردار کا بھی ہے۔‘‘