بلوچستان کے سیلاب متاثرین پر مکھیوں اور مچھروں کا حملہ
16 ستمبر 2010اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں حالیہ سیلابوں سے کم از کم دو کروڑ دس لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ پاکستانی تاریخ کی اس بد ترین قدرتی آفت میں ہلاک شدگان کی تعداد اب تک 1700 کے قریب بتائی جا رہی ہے۔ تاہم چند غیر سرکاری، غیر ملکی امدادی تنظیموں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بہت سے دور افتادہ مقامات پر ابھی بھی روزانہ کی ہلاکتوں کا سبب اس وقت مہلک بیماریاں بن رہی ہیں، کیونکہ ان علاقوں تک تاحال نہ تو حکومتی اہلکار پہنچے ہیں اور نہ ہی کوئی غیر ملکی تنظیمیں۔ ایسی صورتحال میں اُن علاقوں میں ہونے والی مزید اموات کا کہیں بھی اندراج نہیں ہو رہا ہے۔ ایسے علاقوں میں عفونت اور دیگر بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بیماریوں پر قابو نہ پایا گیا تو مزید انسانی جانوں کا ضیاع متوقع ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں تک اب تک حکومتی اہلکاروں کی رسائی نہیں ہوئی ہے۔ وہاں پر طبی امداد پہنچانے والی ایک جرمن امدادی تنظیم LandsAid کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں ان کی طبی امدادی مہم جاری ہے، وہاں مختلف بیماریاں، خاص طور سے ملیریا پھیل رہا ہے، جس کے سبب مزید متاثرین جن میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے، کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
پاکستان میں مون سون کا موسم ہر سال آتا ہے، جس کے بعد مچھروں، وہ بھی ملیریا کا باعث بننے والے خاص قسم کے مچھروں کی یلغار کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ تاہم نہ تو حکومت پاکستان نے اس بارے میں پہلے سے کوئی منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور نہ ہی حالیہ سیلابوں کے بعد ملیریا کا باعث بننے والے مچھروں کی کئی گنا زیادہ پیداوار کے خلاف کوئی اقدامات کئے گئے۔ نتیجہ یہ کہ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں بیشتر متاثرہ علاقوں میں ملیریا کے پھیلاؤ کے خلاف اقدامات کرنا اب نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ ضلع جعفر آباد کے علاقے اوستا محمد میں رات دن طبی امداد پہنچانے والی ایک جرمن غیر سرکاری امدادی تنظیم LandsAid سے منسلک ایک ڈاکٹر زرقا خواجہ، جو جرمن شہر اشٹٹ گارٹ سے بلوچستان گئی تھیں، نے بتایا: ’جن جگہوں پر پانی کھڑا ہے، وہاں بہت زیادہ مچھر حملے کر رہے ہیں۔ ان مچھروں کے کاٹنے سے ملیریا پیدا ہوتا ہے۔ تاہم ان انسانوں کو مچھروں کی طرف سے کاٹے جانے سے بچانا بہت مشکل ہے۔‘
ڈاکٹر زرقا خواجہ نے تاہم ایک اور اہم مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’بلوچستان کے جس علاقے میں ہم طبی کیمپ لگائے ہوئے تھے، وہاں بہت زیادہ مکھیاں بھی تھیں۔ یہ ہمارے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ تھا کیونکہ ہمارے پورے کمرے مکھیوں سے بھرے ہوتے ہیں اور یہ ہمارے کاموں میں ایک بہت بڑی رکاوٹ پیدا کر رہی تھیں۔ یہ مکھیاں متاثرین کے جسموں پر گہرے زخموں پر نہ صرف بیٹھ رہی ہیں بلکہ اُن زخموں کے اندر انڈے بھی دے رہی ہیں۔ یہ نہایت خطرناک صورتحال ہے۔‘
جب ہم نے ڈاکٹر زرقا سے پوچھا کہ زخمی جسموں والے جن افراد کے پاس کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے، وہ آخر مکھیوں سے بچنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ تو اُن کا جواب تھا: ’زخموں کو ممکنہ حد تک صاف پانی سے صاف کرنے کی کوشش کریں۔ ڈیٹول کا صابن اس صفائی کے لئے استعمال کرنا مفید ہے۔ ان زخموں کو ڈھانپنا یا بند رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر پٹی میسر نہیں تو کسی بھی پھٹے ہوئے کپڑے کو ہی لے کر پٹی بنا لیں بشرطیکہ وہ صاف ہو۔ اُس پٹی سے زخم کو چھپا لیں تاکہ اُس پر مکھیاں نہ بیٹھیں۔‘
جرمن تنظیم LandsAid کی طبی ٹیم نے اپیل کی ہے کہ تمام متاثرین خاص طور سے بلوچستان کے سیلاب زدگان کو فورا صاف پانی، ادویات، خُشک غذائی اشیاء اور مچھر دانیاں فراہم کی جائیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک