بلیک بیری تنازعہ : بھارتی حکومت کی تجویز
19 اگست 2010جمعرات کو بھارتی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ نئی دہلی حکومت نے بلیک بیری بنانے والی کمپنی کو کہا ہے کہ وہ اپنی سروس کے ذریعے بھیجی جانے والی ای میلز اور ایس ایم ایس پیغامات تک بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کو رسائی دے۔
بھارتی اخبار’اکنامک ٹائمز‘ کے مطابق ٹیلی مواصلات کے ملکی وزیر نے بلیک بیری کمپنی کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ اگر بھارت میں اپنی سروسز جاری رکھنا چاہتی ہے، تو ریاستی سکیورٹی اداروں کو اس تمام تر ڈیٹا تک رسائی حاصل ہونی چاہئے، جو لوگ اس کمپنی کے ذریعے ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔ بھارتی حکام سکیورٹی خدشات کی بنیاد پراس سمارٹ فون کے ذریعے کی جانے والی کمیونیکیشن کی نگرانی کرنا چاہتے ہیں۔
بلیک بیری کے صارفین جو ای میلز اور پیغامات ایک دوسرے کو ارسال کرتے ہیں، وہ پہلے مرحلے میں ایک پوشیدہ طریقے سے اس کمپنی ’ریسرچ ان موشن‘ یا RIM کے اپنے کمپیوٹرز پر محفوط ہوجاتے ہیں اور بعد ازاں وہاں سے یہ معلومات متعلقہ صارف کو بھیج دی جاتی ہیں۔
’ریسرچ ان موشن‘ کے یہ ڈیٹا سرور کینیڈا اور برطانیہ میں ہیں۔ اس تمام تر مرحلے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان سروسز سے استفادہ کرنے والے مختلف ممالک کے صارفین کا یہ ڈیٹا متعلقہ ممالک کے حکام کے دسترس میں نہیں آتا۔ یہ بات بھارت کے علاوہ کئی دیگر ممالک کے لئے بھی سلامتی کے حوالے سے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ایسے ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، لبنان اور الجزائر بھی شامل ہیں، جنہوں نے بلیک بیری کے طریقہء کار کے سلسلے میں اپنے واضح تحفظات ظاہر کئے ہیں۔
بھارتی حکام نے اس مسئلے کے حل کے لئے جو تجویز دی ہے اس میں یہ شامل ہے کہ بھارت میں بلیک بیری سروسز استعمال کرنے والے افراد کے ڈیٹا کی ایک نقل ملکی سکیورٹی اداروں کو بھی مہیا کی جائے۔ گزشتہ ہفتے بھارتی حکام نے خبردار کیا تھا کہ اگر رواں ماہ کے اختتام تک ایسا نہ کیا گیا تو بھارت میں بلیک بیری سروسز روک دی جائیں گی۔ اس صورت میں بلیک بیری کے صارفین اپنے اس سمارٹ فون کو کال کرنے اور انٹرنیٹ سرفنگ کے لئے تو استعمال کر سکیں گے تاہم وہ کوئی ای میل یا ایس ایم ایس نہیں بھیج سکیں گے۔
بھارت میں سبھی ٹیلی مواصلاتی ادارے قانونی طور پر اس امر کے پابند ہیں کہ ملکی سکیورٹی ادارے ان کے ذریعے بھیجے جانے والے ہر قسم کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک