بنگلہ دیش، انسانی اسمگلنگ ایک سنگین مسئلہ
12 ستمبر 2012بنگلہ دیش کے جنوب مغربی ضلع جیسور کی رہائشی پروین کو اسمگل کر کے بھارت میں جسم فروشی کے ایک اڈے پر پہنچا دیا گیا تھا تاہم اب وہ واپس اپنے گھر پہنچ چکی ہے۔ اب وہ دوبارہ سے اپنی زندگی کا آغاز کرنا چاہتی ہے لیکن بھارت سے واپسی کے بعد سے ہی اس کے ہمسائے روزانہ کی بنیادوں پر اسے ہراساں کرتے ہیں۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق پروین، جو اس کا اصل نام نہیں ہے، گزشتہ دو سالوں سے اسکول نہیں جا سکی ہے۔ پروین نے اسکول میں اپنے کلاس فیلوز کے رویے کے بارے میں کچھ یوں بتایا، ’’ وہ ہمیشہ ہی میرے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے تھے۔‘‘ بھارت اسمگل کیے جانے کے بعد سے پروین قریب تین برس تک اپنے گھر سے دور رہی۔
چودہ سالہ پروین نے مزید کہا کہ وہ انتہائی بری صورتحال میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ اسے 2007ء میں بھارت اسمگل کیا گیا تھا۔ پروین سے غلطی ہوئی تھی کہ اس نے اپنے والدین کے بتائے بغیر ایک ایسی خاتون کی وہ پیشکش قبول کر لی تھی، جس میں پروین کو بھارتی سرحد سے ملحق Satkhira نامی ضلع کی سیر کروانے کا جھانسا دیا گیا تھا۔
ماضی کے جھرونکوں میں جھانکتے ہوئے پروین نے مزید کہا کہ ایک شام وہ گھر والوں کو بتائے بغیر اس عورت کے ساتھ سیر کرنے نکل پڑی۔ اگلے دن ہی اسے کولکتہ پہنچا دیا گیا جبکہ تین دنوں کے اندر اندر اسے پونا کے ایک قحبہ خانے میں منتقل کر دیا گیا، جہاں کئی دیگر لڑکیوں کو بھی جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا تھا۔
پروین بتاتی ہے، ’’ٹرین پر سوار ہونے سے قبل ہی مجھے ایک انجیکشن لگا دیا گیا تھا اور اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا۔‘‘ وہ بتاتی ہے کہ ایک ہفتے کے اندر ہی وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی اور اس نے قریبی تھانے سے مدد طلب کی، جہاں سے اسے ایک شیلٹر ہاؤس میں داخل کرا دیا گیا۔
پروین نے بتایا کہ وہ خواتین کے لیے بنائے گئے اس سینٹر میں آٹھ ماہ تک رہی جس کے بعد اسے کولکتہ میں ایک دوسرے شیلٹر ہاؤس منتقل کر دیا گیا، جہاں وہ انیس ماہ رہی۔ اس دوران اُس شیلٹر ہاؤس نے ’رائٹس جیسور‘ نامی ایک غیر سرکاری ادارے سے رابطہ کیا، جس نے پروین کو اسے کے گھر والوں سے ملایا۔
پروین کی والدہ نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’میں خوش ہوں کہ مجھے میری بیٹی واپس مل گئی ہے۔ لیکن ہمارے لیے اب صورتحال ناقابل برداشت ہو چکی ہے کیونکہ ہمیں روزانہ ہی نازیبا الفاظ سننے پڑتے ہیں۔‘‘ پروین کی ماں اپنی بیٹی کو ڈھاکہ بھیجنا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کے تلخ تجربات کو بھول سکے۔ انہوں نے بتایا کہ پروین اکثر خود کشی کی باتیں بھی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے سوچا تھا کہ میری بیٹی دوبارہ اسکول جا سکے گی لیکن یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہاں دیگر بچے اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘
پروین انسانی اسمگلنگ کا شکار بننے والی ایسی ہزاروں لڑکیوں میں سے ایک ہے، جو کسی نہ کسی طریقے سے بچا تو لی گئی ہیں لیکن بعد میں اسے معاشرتی سطح پر تکلیف دہ رویوں کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی امدادی ادارے ’سیو دی چلڈرن‘ کے بنگلہ دیشی سربراہ مائیکل میک گرا کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران بنگلہ دیش میں پانچ لاکھ لڑکیاں انسانی اسمگلنگ کا نشانہ بنیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرت کی طرف سے جاری کی گئی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش سے اسمگل کی جانے والی لڑکیاں زیادہ تر بھارت اور پاکستان منتقل کی جاتی ہیں، جہاں معاوضے کے عوض ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے یا پھر ان سے بیگار لی جاتی ہے۔
’رائٹس جیسور‘ نامی ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بِنائے کرشنا ملک کہتے ہیں کہ ایسی خواتین کی ایک بڑی تعداد واپس اپنے گھروں کو لوٹنا نہیں چاہتی کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ معاشرہ اور ان کا کنبہ انہیں قبول نہیں کرے گا۔
بنگلہ دیش میں انسانی اسمگلنگ کے انسداد کے ادارے اینٹی ٹریفکنگ ٹاسک فورس کے سربراہ کمال الدین احمد نے ڈی پی اے کو بتایا کہ بنگلہ دیش میں خواتین کے تحفظ اور متاثرین کی بحالی کے لیے نئے قوانین متعارف کروائے گئے ہیں۔ ان قوانین کے تحت ہیومن ٹریفکنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی بھی شامل ہے۔
اس مسئلے کے تناظر میں ڈھاکہ حکومت نے رواں برس فروری میں جو قوانین متعارف کروائے ہیں، ان میں مجرمان کو سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے کم ترین سزا پانچ برس سزائے قید ہے۔
ab / aba (dpa)