بنگلہ دیش: جماعت اسلامی کے اہم رہنما کو سزائے موت سنا دی گئی
17 جولائی 2013بنگلہ دیش میں حکومت کی طرف سے قائم کردہ جنگی جرائم کی متنازعہ خصوصی عدالت نے پینسٹھ سالہ علی احسان محمد مجاہد کو پانچ الزامات میں مجرم ٹھہرایا ہے۔ نسل کشی، اغوا اور قتل سمیت مجموعی طور پر ان پر سات الزامات عائد کیے گئے تھے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق دارالحکومت ڈھاکا میں سنائے جانے والے فیصلے کے بعد بنگلہ دیش کے جونیئر اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر ایم کے رحمان کا بدھ کے روز کہنا تھا، ’’انہیں پانچ میں سے تین الزامات میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔‘‘
جس وقت فیصلہ سنایا گیا، اس وقت علی احسان محمد مجاہد بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ خصوصی عدالت کا کہنا تھا کہ وہ ایک صحافی کے اغوا اور اس کے قتل کے علاوہ ایک میوزک ڈائریکٹر اور ان درجنوں افراد کے قتل میں ملوث تھے، جو سن 1971ء میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کی جنگ میں سر گرم تھے۔ دفاعی وکلاء نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔
بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے بنایا گیا ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل‘ رواں برس جنوری کے بعد سے جنگی جرائم کے الزامات کے تحت جماعت اسلامی کے پانچ سرکردہ رہنماؤں کو سزا سنا چکا ہے۔ قبل ازیں جماعت اسلامی کے تین رہنماؤں کو سزائے موت، ایک کو عمر قید اور ایک کو 90 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
فیصلے کے خلاف احتجاج
اس ممکنہ فیصلے کے خلاف جماعت اسلامی نے پہلے ہی ملک بھر میں عام ہڑتال کا اعلان کر رکھا تھا۔ تاہم ماضی کے برعکس ابھی تک کسی بھی بڑے پرتشدد واقعے کی خبر موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس فیصلے سے پہلے جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ سزائے موت کا فیصلہ سنائے جانے کی صورت میں جمعرات کو بھی عام ہڑتال کی جا سکتی ہے۔ اس متنازعہ ٹریبیونل کی طرف سے ماضی میں سنائی جانے والی سزاؤں کے خلاف عوامی سطح پر شروع ہونے والے پر تشدد مظاہروں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 150 بتائی جاتی ہے۔
ٹریبونل پر اعتراضات
اپوزیشن کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر سرگرم انسانی حقوق کے متعدد ادارے بھی بنگلہ دیش کے اس جنگی ٹریبیونل کی ’منصفانہ اور غیر جانبدارانہ‘ حیثیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس عدالت میں جن ملزمان کے خلاف مقدمے چلائے جا رہے ہیں، ان کا تعلق یا تو جماعت اسلامی سے ہے یا پھر اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بی این پی سے۔