بنگلہ دیش، ’جنگی جرائم کے مجرم‘ قاسم علی کی سزائے موت برقرار
30 اگست 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے رہنما قاسم علی کی طرف سے اپیل کی حتمی درخواست مسترد کر دی ہے۔ ایک خصوصی کورٹ نے انہیں سن انیس سو اکہتر میں پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب کے جرم میں یہ سزا سنائی گئی تھی۔ نومبر سن دو ہزار چودہ میں خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ علی پر تشدد، اغوا اور قتل کے الزامات ثابت ہو گئے ہیں۔
ملکی سپریم کورٹ نے چونسٹھ سالہ قاسم علی کی سزائے موت برقرار رکھنے کا حتمی فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے، جب ڈھاکا حکومت انتہا پسندی کے خلاف اپنی کارروائیوں میں تیزی لا چکی ہے۔ یکم جولائی کو ڈھاکا کے ایک مقبول کیفے پر ہونے والے حملے کے بعد سے بنگلہ دیشی پولیس شدت پسندوں کے خلاف سنجیدگی سے کارروائیوں کا آغاز کر چکی ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں نے بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کی اس خصوصی عدالت کی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے قاسم علی کی اپیل ایک ایسے وقت میں مسترد کی ہے، جب گزشتہ روز ہی امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے اولین دورہ بنگلہ دیش کے دوران کہا تھا کہ ڈھاکا حکومت انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنائے۔
بنگلہ دیش کے اٹارنی جنرل محب عالم نے تیس اگست بروز منگل ڈھاکا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس عدالتی فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر صدر کی طرف سے معافی نہیں دی جاتی تو اب کسی وقت بھی عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف قاسم علی کے وکیل محبوب حسین نے کہا ہے کہ ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے موکل کی سزا کی معافی کے لیے صدر سے کب رابطہ کریں گے۔
بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے سن دو ہزار دس میں ایک خصوصی کریمنل ٹریبونل قائم کیا تھا، جس کا مقصد ایسے مشتبہ افراد کے خلاف مقدمے چلانا تھا، جو سن انیس سو اکہتر میں پاکستان سے آزادی کی جنگ میں مختلف قسم کے جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ خصوصی عدالت دراصل سیاسی مخالفین کی آواز کو خاموش کرانے کی کوشش ہے تاہم ڈھاکا حکومت ایسے الزامات مسترد کرتی ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں قائم کیا گیا یہ کریمنل ٹریبیونل بین الاقوامی معیارات پورے نہیں کرتا تاہم بنگلہ دیشی حکومت ان اعتراضات کو بھی رد کرتی ہے۔
دسمبر سن دو ہزار تیرہ سے اب تک اسی خصوصی عدالت کی طرف سے سزائے موت دیے جانے کے بعد حکومت اپوزیشن پارٹی ’جماعت اسلامی‘ کے چار رہنماؤں کی سزائے موت پر عملدرآمد کر چکی ہے۔