بنگلہ دیش: رانا پلازہ سانحے پر بننے والی فلم پر پابندی
25 اگست 2015خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق فلم کی کہانی رانا پلازہ میں کام کرنے والی ایک خاتون ریشما بیگم کے گرد گھومتی ہے، جنہیں حادثے کے سترہ روز بعد ملبے سے زندہ نکالا گیا تھا۔ عدالت کے دو رکنی بنچ نے اس فلم کی نمائش کے خلاف دائر کی جانے والی درخواست کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس درخواست میں کہا گیا تھا، ’’رانا پلازہ کے سانحے پر بنی فلم میں خوف و دہشت اور تشدد کے مناظر دکھائے گئے ہیں، جس سے ملک میں ملبوسات کی صنعت سے منسلک افراد پر منفی اثر پڑے گا۔‘‘ درخواست گزار اور مزدور یونین کے رہنما سراج الاسلام رائے کے مطابق عدالت نے رواں برس مارچ میں اس فلم سے کچھ دہشت ناک مناظر حذف کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
فلم کے ڈائریکٹر نذر الاسلام خان اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ یہ فلم ریشما بیگم کی کہانی پر مبنی ہے، جو کسی المیے کی بجائے ہمت اور جرات کی ایک مثال ہے۔ ریشما بیگم کے مطابق دو سال قبل جیسے ہی اُنہیں علم ہوا کہ عمارت گِر رہی ہے، تو وہ بھاگ کر تہہ خانے میں چلی گئیں۔ اس کے بعد وہ وہیں پھنس کر رہ گئیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ خوش قسمتی سے وہاں پر خشک خوراک اور پانی کی بوتلیں موجود تھیں، جس کی وجہ سے وہ سترہ دن تک زندہ رہنے میں کامیاب رہیں۔ ریشما بیگم کے بقول اس واقعے نے ان کی زندگی تبدیل کر کے رکھ دی اور وہ اب ایک بین لاقوامی ہوٹل میں کام کر رہی ہیں۔ پیر کے روز ہائی کورٹ نے ملکی سنسر بورڈ سے بھی رابطہ کیا اور اس بارے میں وضاحت کے لیے چار ہفتوں کی مہلت دے دی کہ فلم کی نمائش کا سرٹیفیکیٹ کیوں منسوخ نہیں کیا جا سکتا؟
بنگلہ دیش کی معیشت میں گارمنٹس انڈسٹری ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس صنعت سے چالیس لاکھ سے زائد افراد منسلک ہیں۔ ان میں زیادہ تر دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ہیں۔ رانا پلازہ ایک پانچ منزلہ عمارت تھی۔ دو سال قبل 24 اپریل کو یہ عمارت منہدم ہو گئی تھی، جس کے نتیجے میں تقریباً گیارہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار سے زائد افراد کو ملبے کے نیچے سے زندہ نکال لیا گیا تھا۔