1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کا استعفیٰ نامہ کہاں غائب ہو گیا؟

23 اکتوبر 2024

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کا استعفیٰ نامہ ایک معمہ بن گیا ہے، جس کی وجہ سے ملک میں ایک نیا طوفان کھڑا ہو گیا ہے۔ مظاہرین دوبارہ سڑکوں پر نکلے ہیں اور وہ صدر محمد شہاب الدین کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4m8MY
شیخ حسینہ
صدر شہاب الدین کے مطابق جب ملکی معاملات قابو میں آ گئے تو ایک دن کابینہ کے سکریٹری شیخ حسینہ کے استعفیٰ کی کاپی لینے آئے، تو میں نے ان سے کہا کہ میں بھی اس کی تلاش کر رہا ہوںتصویر: Kazi Salahuddin Razu/NurPhoto/IMAGO

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے بعد اب ملک کے صدر محمد شہاب الدین ایک نئے طوفان کی زد میں ہیں، جن کے خلاف مظاہرے بھی پھوٹ پڑے ہیں۔ بعض مشتعل مظاہرین نے صدارتی محل پر دھاوا بھی بول دیا اور ان کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یہ نیا بحران ملک کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفیٰ کی درخواست کے حوالے سے ہے کہ آخر انہوں نے اپنا تحریری استعفی کسے اور کب سونپا۔

بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کے حامی صحافیوں کے خلاف مقدمات

واضح رہے کہ حسینہ ملک میں پر تشدد مظاہرے کے بعد مستعفی ہو کر پانچ اگست کو بھارت فرار ہو گئی تھیں اور تب سے بھارت میں ہی مقیم ہیں۔

صدر محمد شہاب الدین نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ شیخ حسینہ نے وزارت عظمٰی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، تاہم ان کے پاس اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔

بنگلہ دیش: کیا اقوام متحدہ کی انکوائری سے مظاہرین کو انصاف مل سکے گا؟

صدر کے اسی بیان کے بعد ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے ہیں۔ ڈھاکہ میں اسٹوڈنٹ موومنٹ کے رہنما، جنہوں نے حسینہ مخالف مظاہرے شروع کیے تھے، صدر شہاب الدین کو بھی ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

منگل کے روز سینکڑوں مظاہرین نے بنگ بھون (ایوان صدر) کا محاصرہ کر لیا، جس کے بعد پولیس کو انہیں دور رکھنے کے لیے طاقت کا سہارا لینا پڑا۔

ڈھاکہ کے ایک معروف اخبار ڈیلی اسٹار کی رپورٹ کے مطابق حسنات عبداللہ اور سرجیس عالم، جو اسٹوڈنٹ موومنٹ کے دو سرکردہ رہنما ہیں، نے اس موقع پر مداخلت کی اور مظاہرین کو وہاں سے یہ کہتے ہوئے جانے کے لیے کہا کہ دو دن میں تبدیلی آئے گی۔

بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی کا مستقبل کیا ہے؟

ڈھاکہ ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق حسنات نے کہا کہ "اگلے صدر کے بارے میں فیصلہ تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ اگر ہم ان کو یہ طے کیے بغیر ہٹا دیتے ہیں کہ اگلا صدر کون ہوگا، تو پڑوسی ممالک ہمارے خلاف سازش کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ صدر کی غیر موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے کسی بھی وقت ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کر سکتے ہیں۔"

ڈھاکہ کا مظاہرہ
منگل کے روز سینکڑوں مظاہرین نے بنگ بھون (ایوان صدر) کا محاصرہ کر لیا، جس کے بعد پولیس کو انہیں دور رکھنے کے لیے طاقت کا سہارا لینا پڑاتصویر: Mortuza Rashed/DW

صدر نے آخر کیا متنازعہ بات کہی؟ 

بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے کی نقل نہیں ہے، جو پانچ اگست کو آناﹰ فاناﹰ بھارت فرار ہو گئی تھیں۔ انہوں نے ایک مقامی میڈيا ادارے سے خاص بات چیت میں کہا کہ "میں نے کئی بار (استعفیٰ نامہ تلاش کرنے کی) کوشش کی لیکن اس میں ناکام رہا۔ شاید انہیں اس کا وقت ہی نہ ملا ہو۔"

بنگلہ دیش کے آئین کے سیکشن 57 اے کے مطابق اگر وزیر اعظم  صدر کو اپنا استعفی سونپ دے تو وزارت عظمی کا عہدہ خالی ہو جائے گا۔

بھارتی وزیر داخلہ کے بیان پر بنگلہ دیش کا سخت احتجاج

تاہم ایک مقامی میڈيا سے بات چیت کے دوران صدر نے کہا، "پانچ اگست کی صبح ساڑھے دس بجے بنگ بھون کو وزیر اعظم کی رہائش گاہ سے ایک فون آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ معزز وزیر اعظم محترم صدر سے ملاقات کے لیے بنگ بھون آنا چاہتی ہیں۔ اس کے فوراً بعد ایوان میں تیاریاں شروع کی گئیں، تاہم ایک گھنٹے کے اندر ایک اور کال آئی کہ وہ (شیخ حسینہ) نہیں آئیں گی۔"

صدر کا مزید کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ "میں آس پاس بیٹھ کر افواہوں پر انحصار نہیں کر سکتا۔ لہذا، میں نے ملٹری سکریٹری جنرل عادل سے کہا کہ وہ معلوم کریں کہ (کیا ہو رہا ہے۔ انہیں بھی کوئی خبر نہیں تھی۔ ہم انتظار کر رہے تھے۔"

سابق وزیر اعظم حسینہ نے بنگلہ دیش کے اداروں کو ’تباہ‘ کر دیا، محمد یونس

انہوں نے مزید کہا، "ایک موقع پر، میں نے سنا کہ وہ ملک چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔ انہوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔ ویسے بھی، جب آرمی چیف جنرل وقار بنگ بھون آئے تو میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا وزیر اعظم نے مجھے وہی جواب دیا، جو میں نے سنا ہے کہ 'انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔"

صدر شہاب الدین نے مزید کہا، "جب معاملات قابو میں آ گئے تو ایک دن کابینہ کے سکریٹری استعفیٰ کی کاپی لینے آئے، میں نے ان سے کہا کہ میں بھی اس کی تلاش کر رہا ہوں۔"

تاہم صدر نے اس بات پر زور دیا کہ "اس حوالے سے اب بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ وزیر اعظم چلی گئیں اور یہی حقیقت ہے۔ اس کے بعد بھی صرف اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ سوال دوبارہ کبھی پیدا نہ ہو، میں نے اس معاملے پر سپریم کورٹ کی رائے مانگی۔"

صدر کے بھیجے گئے ریفرنس کے جواب میں اس وقت کے چیف جسٹس عبید الحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے اپیلٹ ڈویژن نے آٹھ اگست کو اپنی رائے دی اور کہا کہ آئینی خلا کو دور کرنے اور ایگزیکٹو کے کام کو یقینی بنانے کے لیے ایک عبوری حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے۔ اس کی بنیاد پر ہی صدر کو عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر اور دیگر مشیروں سے حلف لینے کی بھی اجازت دی۔

بہرحال اس معاملے پر اب ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے اور امکان ہے کہ اب وزیر اعظم شیخ حسینہ کے بعد صدر کے خلاف بھی دوبارہ مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)  

بنگلہ دیش، سیاسی کارٹون بنانے والے اب آزاد محسوس کرتے ہیں