بنگلہ دیش فیکٹری حادثہ، ہلاکتیں 900 کے قریب
9 مئی 2013ڈھاکہ کے قریبی علاقے ساور میں گرنے والے رانا پلازہ کا ملبہ ہٹائے جانے کا کام جاری ہے۔ اس حادثے کو گارمنٹس کی صنعت کا خونریز ترین حادثہ قرار دیا جا رہا ہے۔ رانا پلازہ نامی اس عمارت میں پانچ گارمنٹس فیکٹریاں قائم تھیں۔ حادثے کے بعد 2500 سے زائد افراد کو بچا لیا گیا تھا۔ تاہم اس عمارت کے انہدام کے وقت وہاں کتنے کارکن موجود تھے اس بارے میں حتمی معلومات موجود نہ ہونے کے باعث ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ مزید لاشیں اس ملبے تلے ہو سکتی ہیں یا نہیں۔
آج جمعرات کے روز دارالحکومت ڈھاکا کی ایک بلڈنگ میں آگ لگنے کے باعث آٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکام کے مطابق اس 11 منزلہ عمارت میں ایک گارمنٹ فیکٹری کے علاوہ رہائشی اپارٹمنٹس بھی موجود ہیں۔
بدھ کے روز ملکی وزیر ٹیکسٹائل لطیف صدیقی نے میڈیا کو بتایا کہ رانا پلازہ حادثے کے بعد ملک بھر میں ناقص حفاظتی انتظامات کی وجہ سے 18 گارمنٹ فیکٹریوں کو بند کر دیا گیا ہے، جن میں سے 16 دارلحکومت ڈھاکہ میں اور 2 ساحلی شہر چٹاگانگ میں ہیں۔ بنگلہ دیش میں اس وقت بھی 4500 کے قریب گارمنٹ فیکٹریاں کام کر رہی ہیں۔
بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے ناکافی حفاظتی اقدامات کے باعث گارمنٹ فیکٹریاں بند کرنے کا فیصلہ دراصل انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کےساتھ اس بات پر اتفاق کے چند روز بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ تحفظ کو ’سب سے زیاد اہمیت‘ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ اس بات کے خدشات بھی بڑھ رہے تھے کہ مغربی گارمنٹ کمپنیاں اپنا مال تیار کرانے کے لیے دیگر ملکوں سے رجوع کرنا شروع کر سکتی ہیں۔
لطیف صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش میں ILO کے معیارات کو یقینی بنایا جائے گا۔ ملک میں قائم 4500 کے قریب گارمنٹ فیکٹریوں کی انسپکشن کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی پینل بھی بنایا گیا جس کی سربراہی وزیر ٹیکسٹائل لطیف صدیقی کے پاس ہے۔ اس کا مقصد مستقبل میں کسی حادثے سے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنا ہیں۔ صدیقی کا اس موقع پر مزید کہنا تھا کہ انسپکشن کے دوران اعلٰی ترین معیارات کا دعویٰ کرنے والی بعض ایسی فیکٹریوں کے بارے میں یہ حقائق سامنے آئے کہ وہ بلڈنگ ریگولیشنز پر پورا نہیں اترتیں۔
aba/ah (AFP)