بنگلہ دیش: فیکٹری کمپلیکس حادثے میں ہلاکتیں ایک ہزار سے تجاوز
10 مئی 2013ڈھاکہ سے شمال مغرب میں 30 کلو میٹر کی دوری پر واقع ٹاؤن ساور کے رانا پلازہ کمپلیکس کے انہدام کو دو ہفتے سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اب بھی اس عمارت کے ملبے تلے دبی فیکٹریوں کے ملازمین کی لاشوں کی تلاش جاری ہے۔ رانا پلازہ کمپلیکس میں پانچ گارمنٹ فیکٹریاں تھیں۔ منہدم ہونے والے اس فیکٹری کمپلیکس سے نکالی جانے والی لاشوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ حکام نے نکالی جانے والی لاشوں کی کل تعداد 1038 بیان کی گئی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ابھی کئی اور لاشیں دستیاب ہو سکتی ہیں۔
جنوبی ایشیا میں سن 1984 میں بھارت کے شہر بھوپال میں رونما ہونے والے المیے کے بعد انسانی ہلاکتوں کی تعداد کے اعتبار سے ساور کا المناک واقعہ دوسرا بڑا سانحہ ہے۔ بھوپال میں یونین کاربائیڈ انڈیا لمیٹیڈ کے کارخانے سےخطرناک کیمیکل عناصر کی حامل زہریلی گیس کے اخراج سے فوری طور پر 2259 انساں جاں بحق ہو گئے تھے اور متاثرین کی تعداد لاکھوں میں تھی۔
رانا پلازہ کمپلیس کے انہدام کے فوری بعد شروع ہونے والی امدادی کارروائیوں کے دوران تقریباً ڈھائی ہزار افراد کو بچا لیا گیا تھا۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ عمارت کے ملبے تلے کُل کتنے افراد دب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ عمارت کا ملبہ جوں جوں ہٹایا جا رہا ہے توں توں لاشیں ملتی جا رہی ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ عمارت کا کمزور ڈھانچہ چھت پر نصب کیے گئے بھاری جنریٹروں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکا۔
عمارت کے منہدم ہونے کے واقعے میں اب تک نو افراد حراست میں لیے جا چکے ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں عمارت کا مالک اور پانچ فیکٹریوں کے مالکان بھی شامل ہیں۔ عمارت کے ملبے کے قریب سینکڑوں لوگ لاپتہ افراد کی تصاویریں لیے کھڑے ہیں۔ ملبے تلے دبی لاشوں نے گلنا سڑنا شروع کر دیا ہے اور شناخت کا عمل اب مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اُن نعشوں کی شناخت میں آسانی ہوتی ہے جن کی جیبوں میں شناختی کارڈز موجود ہیں۔ ڈھاکہ کے ضلعی انتظامی افسر محمد یوسف ہارون کے مطابق اب تک 156 ایسی لاشوں کو دفنایا جا چکا ہے، جن کی شناخت ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ یوسف ہارون نے یہ بھی بتایا ہے کہ گمنام لاشوں کے ڈی این اے کے نمونوں کو محفوظ کر لیا گیا ہے اور ممکنہ ورثا کے دعووں پر ڈی این اے کے ٹیسٹ کے مثبت آنے پر امانتاً دفنائی گئی لاشیں انہیں دی جا سکیں گی۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں کئی گارمنٹ فیکٹریاں مغربی ملکوں میں قائم ملبوسات فروخت کرنے والے بڑے اداروں کے لیے کام کرتی ہیں۔ رانا پلازہ کمپلیکس کی پانچ فیکٹریوں میں سے ایک مشہور ہسپانوی برانڈ مینگو کے لیے بھی کپڑے تیار کرتی تھیں۔ ان فیکٹریوں میں سستی مزدوری پر لوگ کام کرتے ہیں اور ان کے اندر ورکنگ انوائرنمنٹ کو انتہائی مخدوش خیال کیا جاتا ہے۔
(ah/zb(Reuters