بنگلہ دیش فیکڑی حادثہ: ’امدادکے وعدے وفا نہ ہوئے‘
10 اپریل 2014جمعرات کو گلوبل ٹریڈ یونینز ’انڈسٹری آل‘ اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے نیٹ ورک ’کلین کلوتھس کمپنی‘ نے کہا ہے کہ امداد کے لیے کیے گئے وعدوں کے برعکس انہیں صرف ایک تہائی رقوم موصول ہوئی ہیں۔ قبل ازیں فیکڑی حادثے میں ہلاک شدگان کے لواحقین اور دو ہزار سے زائد زخمیوں کے لیے 40 ملین ڈالر کا فنڈ قائم کیا گیا تھا۔ مزدور یونینز کی جانب سے سامنے آنے والے بیان کے مطابق مجموعی طور پر بنگلہ دیشی فیکڑی سے 29 مغربی برانڈز اپنی مصنوعات تیار کرواتے تھے اور ان میں سے صرف آدھے برانڈز نے متاثرین کے لیے مختص چالیس ملین ڈالر کے فنڈ میں رقوم جمع کروائی ہیں۔
یہ فنڈ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی طرف سے چلایا جا رہا ہے۔ اس تنظیم کی جانب سے ایک مرتبہ پھر مغربی برانڈز سے اپیل کی گئی ہے کہ رواں ماہ حادثے کا ایک سال مکمل ہونے سے پہلے پہلے رقوم ادا کر دی جائیں۔
انڈسٹری آل کی جنرل سیکرٹری جیرکی رائنا کا کہنا تھا، ’’ اس تباہی سے بچ جانے والے مزدوروں اور ہلاک ہونے والوں کے اہلخانہ کو مدد کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ برس ان کو ادویات کے اخراجات بھی اٹھانا پڑے جبکہ آمدنی کی بھی کمی تھی۔‘‘
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق کچھ مغربی برانڈز کا کہنا ہے کہ انہوں نے ماضی میں اس فیکڑی میں اپنی مصنوعات تیار کروائی تھیں اور حادثے کے وقت ان کا اس فیکڑی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا جبکہ کئی دیگر برانڈز اپنے طے کردہ منصوبوں کے تحت معاوضہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔
کلین کلوتھس کمپین نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والی انیکے سیلڈنروسٹ کا معلومات فراہم کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بنگلہ دیشی فیکڑی سے ملبوسات تیار کروانے والے 29 مغربی برانڈز کی مجموعی طور پر سالانہ آمدنی 22 بلین ڈالر سے بھی زائد ہے، ’’ ہم نے ان سے اپنے سالانہ منافع کا 0.2 فیصد سے بھی کم حصہ مانگا ہے۔‘‘
ملبوسات کی برطانوی کمپنی پرائی مارک نے گزشتہ ماہ مزید دس ملین ڈالر ادا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان میں سے نو ملین براہ راست 580 متاثرہ خاندانوں کو فراہم کیے جائیں گے جبکہ ایک ملین فنڈ میں جمع کرایا جائے گا۔ بنگلہ دیش میں تیار کی جانے والی کپڑے کی 60 فیصد مصنوعات یورپ جبکہ 23 فیصد امریکا درآمد کی جاتی ہیں۔