بنگلہ دیش میں ’آزاد سوچ جرم بنتی جا رہی ہے‘
20 مئی 2016پولیس کے مطابق حملہ آور ایک موٹر سائیکل پر سوار تھے اور یہ واقعہ مغربی ضلع کشتیا میں پیش آیا۔ بتایا گیا ہے کہ 55 سالہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر میر ثناءالرحمان موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ 45 سالہ یونیورسٹی استاد سیف الرحمان شدید زخمی ہیں۔ ضلع کشتیا دارالحکومت ڈھاکا سے 150 میل مغرب کی جانب واقع ہے۔
مقامی پولیس کے سربراہ محمد شہاب الدین چوہدری کے مطابق حملے میں استعمال ہونے والا خنجر برآمد کر لیا گیا ہے۔ ان کے بقول خنجر پر خون لگا ہوا ہے، ’’شک ہے کہ اس حملے کے پیچھے مسلم شدت پسندوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا ان افراد کو کسی دشمنی کی بنا پر حملے کا نشانہ بنایا گیا یا اس جرم کی کوئی اور وجہ ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مقتول ڈاکٹر اپنی روشن خیالی اور ترقی پسندانہ سوچ کی وجہ سے پورے علاقے میں شہرت رکھتے تھے۔ دوسری جانب زخمی استاد کے حلقہ احباب سے پتہ چلا ہے کہ وہ بھی آزاد سوچ اور فکری ترقی پسندی کے حامی ہیں۔
ابتدائی تفتیش کے مطابق مقتول ڈاکٹر حملے کے وقت حسب معمول اپنے کلینک پر جا رہے تھے۔ وہ ہر ہفتے میں ایک روز مریضوں کا مفت علاج کیا کرتے تھے۔ بنگلہ دیش میں فروری 2015ء سے اب تک چھبیس افراد کو ان کی آزادانہ سوچ اور مذہب سے متعلق خیالات کے باعث ہدف بنا کر قتل کیا جا چکا ہے۔ ان میں آزاد خیال بلاگرز، دانشور، مذہبی اقلیتوں کے ارکان اور غیر ملکی امدادی کارکن بھی شامل ہیں۔
ان میں سے کچھ حملوں کی ذمہ داری ’برصغیر میں القاعدہ‘ نامی شدت پسند تنظیم قبول کر چکی ہے جبکہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ بھی ان میں سے کئی واقعات میں اپنے ملوث ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ دوسری جانب ڈھاکا حکومت ملک میں القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ کی مسلح موجودگی کو مسترد کرتی ہے۔ اسی دوران پولیس نے انصار اللہ بنگلہ ٹیم نامی ایک اور شدت پسند گروپ کے چھ اہم ارکان کے بارے میں اطلاع دینے والے کے لیے 23 ہزار ڈالر انعام کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ ان شدت پسندوں پر متعدد بلاگرز کو قتل کرنے کے الزامات ہیں۔ بنگلہ دیش میں انصار اللہ بنگلہ ٹیم ایک کالعدم تنظیم ہے۔