بنگلہ دیش میں اب خواتین بھی ڈرائیور
1 نومبر 2012ان خواتین میں ملک کے جنوب مغربی علاقے کے ایک غریب گاؤں کی بائیس سالہ جہاں آراء بھی شامل ہے، جو اس کورس کی تکمیل کے بعد ڈرائیونگ کو پیشے کے طور پر اپنانا چاہتی ہے۔ اُس کے خیال میں اس پیشے سے اُسے آزادی بھی حاصل ہو گی اور یہ اُس کے لیے ایک معقول ذریعہء آمدنی بھی ہو گا۔
جہاں آراء اکیس خواتین کے اُس گروپ کا حصہ ہے، جس نے اس سال جولائی میں شروع کیا جانے والا یہ تربیتی کورس مکمل کر لیا ہے۔ اس کورس کا مقصد ڈرائیونگ کو بطور پیشہ اختیار کرنے کے سلسلے میں خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا اور یوں معاشرے میں نظر آنے والے صنفی امتیاز کو ختم کرنا ہے۔
بنگلہ دیش جیسے قدامت پسندانہ اقدار کے حامل مسلم اکثریتی ملک میں جہاں آراء کو اپنے فیصلے کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ وہ بتاتی ہے: ’’گاؤں کے بزرگوں نے میرے گھر والوں کے ساتھ تعلقات ختم کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ میرے جیسی نوجوان لڑکی کو گھر والوں سے دور اکیلے نہیں رہنا چاہیے اور یہ کہ ڈرائیونگ سے خواتین کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ میں نے اپنے والدین سے کہا کہ جب میری مالی پوزیشن مستحکم ہو جائے گی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اب ہم بھوک کا شکار ہوں تو گاؤں کے بزرگ ہمیں کھانا بھی نہیں دیتے۔‘‘
جہاں آراء نے اپنے شوہر سے خلع لے لیا تھا کیونکہ وہ جہیز میں سونا اور ایک موٹر سائیکل مانگ رہا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے اُس نے کہا، ’’میں نے یہ دیکھا ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ ہر طرح کے سماجی چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں۔‘‘
بہت سے دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے برعکس بنگلہ دیش میں خواتین ملازمت تو کرتی ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر خواتین ٹیکسٹائل کے برآمدی شعبے سے وابستہ ہیں، جہاں اُنہیں انتہائی کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔
ڈرائیونگ کا کورس مکمل کرنے والی ہر خاتون ڈرائیور کے طور پر ملنے والی کسی سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت کے دوران کم از کم دَس ہزار ٹکے (122 ڈالر) کما سکے گی۔ یہ آمدنی ملبوسات کی صنعت سے وابستہ کسی خاتون کی تنخواہ سے تین گنا زیادہ ہو گی۔
اس پروگرام کے سربراہ احمد نجم الحسین کو امید ہے کہ اس طرح کے کورسز کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی سڑکوں پر زیادہ تعداد میں خواتین ڈرائیور نظر آ سکیں گی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کوئی انہونی بات نہیں رہے گی۔
آج کل بنگلہ دیش میں رجسٹرڈ ڈرائیوروں میں سے صرف 265 خواتین ایسی ہیں، جو پیشہ ورانہ طور پر ڈرائیونگ کرتی ہیں۔ اس کے برعکس مرد ڈرائیوروں کی تعداد کا اندازہ 2.4 ملین لگایا گیا ہے۔
یورپ اور امریکا کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں ٹریفک حادثات کی شرح کم از کم پچاس گنا زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے سربراہ ایوب الرحمان خان کہتے ہیں: ’’ہم نے سوچا کہ حادثات کی تعداد کم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ زیادہ تعداد میں خواتین ڈرائیونگ کریں۔ خواتین ڈرائیورز کا رویہ کم جارحانہ ہوتا ہے۔ مرد ڈرائیوروں کے مقابلے میں مہلک حادثات میں اُن کے ملوث ہونے کا تناسب پچاس فیصد کم ہوتا ہے اور سڑک پر جارحانہ ماحول کی شدت بھی کافی کم ہو جاتی ہے۔‘‘
(aa/mm(afp