بنگلہ دیش میں اطالوی امدادی کارکن ہلاک
29 ستمبر 2015سیزرتاویلا کے قتل کی ذمہ داری مسلم عسکریت پسندوں نے قبول کی ہے اور قابل اعتماد ذرائع سے یہ معلومات بھی حاصل کی جاچکی ہیں کہ اور لوگوں کو بھی نشانہ بنائے جانے کا امکان ہے۔
چار لبرل بلاگرز کے قتل کے بعد سیزر کا قتل سڑکوں پر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی تازہ ترین علا مت ہے۔
امریکی سفارت خانے سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے،’بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر امریکی شہری ایسی تقریبات اور بین الاقوامی ہوٹلز میں جانے سے پرہیز کریں، جہاں بہت سے غیر ملکی اکٹھے ہونے والے ہوں۔‘
برطانیہ نے بھی اپنے سفارتی اہلکاروں سے کہا ہے کہ وہ ایسی تقریبات سے دور رہیں، جہا ں بہت سے لوگ اکٹھے ہونے والے ہوں۔ برطانیہ نے اپنے سفارتی عملے کو ستمبر کے آخر میں ممکنہ حملوں سے خبردار بھی کیا۔
بنگلہ دیشی پولیس کے انسپکٹر جنرل مخلص الرحمان نے جائے وقوعہ کے دورے کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ سیزر تاویلا کے قتل کے پیچھے محرکات ابھی معلوم نہیں ہوئے۔
’لیکن اپنے تجربے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں، یہ قتل باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔‘
مسلم عسکریت پسندوں کے ایک آن لائن بیان میں انہوں نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ پولیس نے کہا ہے، ’ہم ان کے دعوے سے باخبر نہیں تھے، جس کی ابھی آزادانہ طور پر تصدیق بھی نہیں ہوئی ہے۔‘
ابھی پچھلے ہفتے آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم نے اپنا بنگلہ دیش کا دورہ عسکریت پسندوں کی طرف سے ممکنہ سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر منسوخ کر دیا تھا۔
آسٹریلوی بیان کے مطابق، ’ہمیں قابل اعتماد ذرائع سے یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ عسکریت پسند شاید آسٹریلوی مفادات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس لیے بنگلا دیش میں آسٹریلوی حکام کو اپنی نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔‘
بنگلہ دیش کی حکومت اس وقت مسلم عسکریت پسندوں سے نمٹ رہی ہے جو کہ 160 ملین آبادی والے اس ملک میں اسلامی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔