بنگلہ دیش میں ایک اور رہنما کے لیے سزائے موت
1 اکتوبر 2013صلاح الدین قادر چوہدری حکومت مخالف سیاسی جماعت، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ،کے رہنما ہیں۔ اٹارنی جنرل محبوب عالم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں بین الاقوامی جرائم کے ٹریبیونل نے جنگ کے دوران کیے گئے نو مختلف جرائم میں مجرم قرار دیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ صلاح الدین قادر چوہدری کو عدالت نے نسل کشی، قتل اور مذہبی بنیادوں پر نامساعد حالات پیدا کرنے کے جرائم میں سزا سنائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جج اے ٹی ایم فضل کبیر نے حکم جاری کیا کہ صلاح الدین قادر چوہدری کو پھانسی دی جائے۔
جنوری سے لے کر اب تک یہ ٹریبیونل جنگی جرائم کے الزامات میں چھ مذہبی رہنماؤں سمیت سات افراد پر فرد جرم عائد کر چکی ہے۔ نو ماہ طویل آزادی کی اس جنگ میں کچھ مقامی افراد نے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔
صلاح الدین قادر چوہدری جو کہ تین دہائیوں سے رکن پارلیمنٹ ہیں، نے الزام لگایا ہے کہ عدالت نے یہ فیصلہ ڈھاکہ حکومت کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ وزارت قانون کی جانب سے آیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عدالت کے اس فیصلے کی کاپی انٹرنیٹ پر گزشتہ روز سے موجود ہے۔
پولیس کو خدشہ ہے کہ عدالت کے اس فیصلے کے بعد ملک کے دیگر علاقوں اور خصوصی طور پر چٹاگونگ میں حکومت مخالف جماعت کے حامیوں کی جانب سے پر تشدد کاروائیاں کا آغاز ہو سکتا ہے۔
مقامی پولیس چیف کمار چکرورتی نے اے ایف پی کو بتایا کہ منگل کو صلاح الدین قادر چوہدری کے کچھ حامیوں نے ایک رکشہ کو آگ لگا دی تھی۔ مزید ہنگامہ آرائی سے بچنے کے لیے پولیس اور نیم فوجی دستوں کے اہلکار شہر میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔
بنگلہ دیش میں جنوری سے لے کر اب تک جنگی جرائم کے الزامات میں دی جانے والی سزاؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاج اور ہنگامہ آرائی میں ایک سو سے افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ آزادی کے بعد بنگلہ دیش میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والے یہ سب سے خونریز ترین واقعات ہیں۔
صلاح الدین قادر چوہدری پاکستان کی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر کے صاحبزادے ہیں۔ استغاثہ کے مطابق وہ انتہائی سفاک قاتل ہیں اور انہوں نے دو سو سے زیادہ ہندوؤں کو قتل کیا اور ان میں ہیربل ادویات بنانے والی ایک مشہور کمپنی کے مالک بھی شامل تھے۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور اس کی حامی جماعتوں کا موقف ہے کہ عوامی لیگ اگلے برس جنوری میں ہونےو الے انتخابات میں اپنے مخالفین کے خاتمے کے لیے اس ٹریبیونل کو استعمال کر رہی ہے۔ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مقدمات انیس سو اکہتر کی جنگ کے زخموں کو بھرنے کے لیے ضروری ہیں، جس میں تیس لاکھ افراد ہلاک اور دو لاکھ عورتوں کی عصمت دری کی گئی تھی۔ غیر جانبدار حلقوں کے مطابق اس جنگ کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تین سے پانچ لاکھ کے درمیان تھی۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے حکم پر 2010ء میں یہ خصوصی ٹریبیونل قائم کیا گیا تھا۔