بنگلہ دیش میں بس پر پٹرول بم حملہ، سات افراد ہلاک
4 فروری 2015اس دہشت گردانہ واقعے کو وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی مہم اور ملک میں انتشار پھیلانے کی کوششوں کی ایک کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس چیف توتُل چکرورتی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’منگل کی صبح چار بجے اس مسافر بس پر پٹرول بم سے حملہ کیا گیا۔ سات مسافر بس میں ہی جل کر ہلاک ہوگئے۔ پانچ مسافروں کے جسم 40 سے 80 فیصد تک جھُلس گئے۔ وہ اپنی موت سے جنگ کر رہے ہیں تاہم ان کے بچنے کی امید کم ہے۔‘‘ اس پولیس اہلکار کے مطابق ان زخمیوں کو دارالحکومت ڈھاکا کے ایک ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ قتل ہے اور ہم مجرموں کا سراغ لگا لیں گے۔‘‘
اس دہشت گردانہ حملے میں بچ جانے والے بس مسافروں نے بتایا کہ بس مقامی مسافروں سے بھری ہوئی تھی جو کوکسس بازار نامی علاقے سے راتوں رات لوٹ رہے تھے۔ ایک نجی ٹیلی وژن چینل کو بیان دیتے ہوئے بچ جانے والے ایک مسافر کا کہنا تھا، ’’میں مسافروں کی چیخ و پکار سن کر جاگا تو میں نے دیکھا کہ بس میں لگی ہوئی آگ میں لوگ جھلس رہے ہیں، میں بس کی ایک کھڑکی سے باہر کودنے میں کامیاب ہو گیا اور باہر بھی میں نے ایک دوست کو جلتے ہوئے دیکھا۔ میں نے آگ میں کود کر اس کو بچانے کی کوشش کی۔ اس کی حالت بہت نازک ہے۔‘‘ ضلعی پولیس سربراہ کے مطابق 15 مسافروں کو، جنہوں نے بس کی کھڑکیوں سے باہر چھلانگ لگائی تھی، معمولی زخم آئے ہیں۔
پولیس انسپکٹر محفوظ الرحمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکام کو شبہ ہے کہ اپوزیشن جماعت بی این پی کے کارکن اس پٹرول بم حملے میں ملوث ہیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد قریبی دیہات میں چھاپے مارے گئے لیکن تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
ادھر ڈھاکا میڈیکل کالج ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے مطابق منگل کو ایک اور شخص راتوں رات ایک وین پر ہونے والے حملے میں جل کر ہلاک ہو گیا۔ اس طرح گزشتہ چند ماہ سے بنگلہ دیش میں سیاسی انتشار کی آگ کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 54 ہو گئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں بسوں اور لاریوں پر کیے گئے پٹرول بم حملوں کے نتیجے میں ہوئیں۔
بنگلہ دیش میں پولیس نے مظاہروں کے آغاز کے بعد سے اب تک سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں اپوزیشن کے قریب دس ہزار حامیوں کو گرفتار کیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق قریب 850 گاڑیوں کو یا تو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا یا انہیں شدید نقصان پہنچایا گیا۔ اس دوران پبلک ٹرانسپورٹ نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
حکام نے تشدد کی روک تھام کے حوالے سے 69 سالہ اپوزیشن رہنما اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا پر دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے جو تین جنوری سے اپنے دفتر میں پناہ لیے ہوئی ہیں۔