بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا کے بیٹے کو سات برس قید کی سزا
21 جولائی 2016جمعرات کے روز ہائی کورٹ نے ماتحت عدالت کی جانب سے بری کیے جانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر 51 سالہ طارق رحمان کو دو ملین ٹکا (ڈھائی ملین ڈالر) جرمانے اور سات برس قید کی سزا سنائی۔
بنگلہ دیش میں انسداد بدعنوانی کمشین کے ایک وکیل خورشید عالم خان نے اس عدالتی فیصلے کی تفصیلات بین الاقوامی خبر رساں اداروں کو بتائیں۔ ماتحت عدالت کی جانب سے طارق رحمان کو بری کیے جانے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل خان ہی نے کی تھی۔ رحمان اس وقت برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
فیصلے کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے خان کا کہنا تھا، ’’یہ فیصلہ یہ بات ثابت کرتا ہے کہ قانون سے بالا کوئی نہیں ہے۔‘‘
سن 2013ء میں عدالت نے رحمان کو ان الزامات سے بری کر دیا تھا، جن میں کہا گیا تھا کہ رحمان نے سنگاپور میں مقیم اپنے دوست غیث الدین علی مامون کو 204 ملین ٹکا (دو اعشاریہ چھ ملین ڈالر) رقم غیرقانونی طور پر پہنچائی۔ تب عدالت نے مامون کو سنائی گئی سات برس قید کی سزا برقرار رکھی تھی۔'
سابقہ عدالتی سماعت میں رحمان کے وکیل زین العابدین، جو اب لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ فی الحال وکلائے دفاع نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ آیا اس عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جائیں یا نہیں۔
عدالتی احکامات میں کہا گیا ہے کہ فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے رحمان کو عدالت میں پیش ہونا ہو گا اور غالبا یہی وجہ ہے کہ ان کے وکلاء اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کرنا چاہتے۔
اس فیصلے کے بعد بنگلہ دیشی وزیر برائے قانون انیس الحق نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ان کی حکومت برطانوی حکام یا بین الاقوامی پولیس (انٹرپول) سے رحمان کی گرفتاری اور بنگلہ دیش حوالگی سے متعلق تعاون طلب کر سکتی ہے۔تاہم یہ بات اہم ہے کہ بنگلہ دیش اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلے کو معاہدہ موجود نہیں۔
بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعت نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیا نے اس عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بنیاد سیاسی نوعیت کی ہے اور یہ فیصلہ ان کے بیٹے طارق رحمان کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔