بنگلہ دیش میں سیکولر مصنفین پر حملے، ایک پبلشر کا قتل
31 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہفتہ اکتیس اکتوبر کو بنگلہ دیش کے اہم دانشور اور مصنف فیصل عارفین دیپن کو وسطی ڈھاکا میں واقع ان کے دفتر میں ہی ہلاک کر دیا گیا۔ فیصل کے والد نے بتایا کہ حملہ آوروں نے ان کے بیٹے کا گلہ کاٹ دیا۔
پولیس کے مطابق تینتالیس سالہ فیصل کی لاش ان کے دفتر سے برآمد ہوئی۔ فیصل کے والد ابوالقاسم فضل الحق نے بتایا، ’’میں نے دیکھا کہ وہ (فیصل) اوندھے منہ پڑا ہے۔ وہ خون میں لت پت تھا۔ اس کا گلہ کاٹ دیا گیا تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’میرے بیٹے نے اویجیت رائے کی کتابیں شائع کی تھیں۔ حملہ آوروں نے ایسے دیگر پبلشرز کو بھی نشانہ بنایا ہے، جنہوں نے رائے کی کتابوں کی اشاعت کا کام کیا تھا، لیکن ہلاک میرا بیٹا ہوا ہے۔‘‘
سیکولر مصنف اور بلاگر اویجیت رائے کو بھی نامعلوم افراد نے رواں برس فروری میں اسی طرح ہلاک کر دیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ بنگلہ دیش میں لادین بلاگرز اور مصنفین کو اس طرح سے خونریز حملوں کا نشانہ بنانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
فیصل کی ہلاکت سے کچھ گھنٹے قبل اکتیس اکتوبر ہفتے ہی کے دن ڈھاکا میں ایک ایسا اور حملہ بھی کیا گیا، جس میں دو سیکولر مصنفین اور ایک پبلشر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تین نامعلوم حملہ آوروں نے ان کے دفتر میں داخل ہو کر انہیں مارا پیٹا اور باہر سے دروازہ بند کر کے فرار ہو گئے۔ بعد ازاں پولیس کو دروازہ توڑ کر ان افراد کو باہر نکالنا پڑا۔ طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ ان میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔
ڈھاکا کے ایک پولیس انسپکٹر معظم الحق نے تصدیق کی کہ فیصل کو سر اور گردن پر حملہ کر کے ہلاک کیا گیا۔ مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس پولیس افسر نے بتایا کہ جب فیصل کے والد ٹیلی فون پر اپنے بیٹے سے رابطہ نہ کر سکے، تو انہوں نے پولیس کو مطلع کیا۔ پولیس اہلکار جب ان کے دفتر پہنچے، تو انہوں نے فیصل کو وہاں مردہ حالت میں پایا۔
کسی گروہ نے فوری طور پر ان پرتشدد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم پولیس کو شبہ ہے کہ ان حملوں میں بھی انصاراللہ بنگلہ نامی انتہا پسند گروہ ملوث ہو سکتا ہے۔ یہ گروہ ماضی میں سیکولر مصنفین اور بلاگرز پر متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ بنگلہ دیش میں رواں سال کے دوران چار بلاگرز ہلاک کیے جا چکے ہیں۔