بنگلہ دیش میں طلبا کا احتجاج ختم، انٹرنیٹ سروسز بحال
29 جولائی 2024بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ طلباء کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف احتجاج ختم کرنے اور حالات معمول پر آنے کے بعد ملک بھر میں انٹرنیٹ سروسز بحال کر دی گئی ہیں۔ طلبا کے اس احتجاج کے دوران تقریباً 150 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
گزشتہ ماہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں شروع ہونے والا یہ احتجاج ملک گیر مظاہروں میں تبدیل ہو گیا تھا، جس کے بعد سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے اور مزید تشدد روکنے کے لیے کرفیوکے نفاذ اور سڑکوں پر فوج کے گشت کےسا تھ ساتھ انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دی گئیں۔
ایک تازہ پیش رفت میں ملکی وزارت خارجہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا، ''اب تک براڈ بینڈ اور موبائل انٹرنیٹ رابطوں کو مکمل فعالیت کے ساتھ بحال کر دیا گیا ہے۔‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا، ''زمینی اور موبائل ٹیلی کمیونیکیشن سمیت مواصلات کی دیگر سہولیات بدامنی اور تشدد کے دوران بھی فعال رہیں۔ حکومت تمام بین الاقوامی شراکت داروں کو یقین دلانا چاہتی ہے کہ حکومت اور عوام کے بروقت اور مناسب اقدامات کی بدولت مجموعی صورتحال معمول پر آ رہی ہے۔‘‘
اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں، امریکہ اور برطانیہبنگلہ دیش میں حالیہ احتجاجی سلسلے کے دوران مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کے ناقدین میں شامل رہے ہیں اور انہوں نے حکومت پر عوام کے پرامن احتجاج کے حق کو برقرار رکھنے کے لیے زور دیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اپنے پندرہ سالہ دور حکومت کو شخصی اقتدار میں تبدیل کرنے کی جانب مائل رہی ہیں، جس میں سیاسی مخالفین اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ تاہم شیخ حسینہ ان الزامات کی تردید کرتی ہیں۔
بنگلہ دیشی طلباء کی قیادت میں حالیہ مظاہرے جون میں اس وقت شروع ہوئے تھے جب، ایک ہائی کورٹ نے پاکستان سے آزادی کے لیے 1971ء کی جنگ میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کے خاندانوں سمیت دیگر افراد کے لیے سرکاری ملازمتوں کے لیے مختص کوٹے کی بحالی کا حکم دیا تھا۔ ان مظاہروں کے دوران پولیس نے سڑکوں پر آنے والے دسیوں ہزار افراد کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا تھا۔
بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کی جانب سے اکیس جولائی کو سرکاری ملازمتوں کے لیے مختص زیادہ تر کوٹہ ختم کرنے کے فیصلے کے بعد طلباء نے اپنا احتجاج روکنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس عدالتی حکم کے نتیجے میں 93 فیصد سرکاری ملازمتوں کے لیے امیدواروں کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر کیے جانے کی راہ ہموار ہو گئ۔
شیخ حسینہ حکومت کا کہنا ہے کہ طلبہ کی تحریک ''زیادہ تر پرامن، مخصوص مسائل پر مرتکز‘‘ اور تشدد میں ملوث نہیں تھی ۔ تاہم حکومت نے مظاہروں کے دوران تشدد کے لیے مرکزی اپوزیشن سیاسی جماعتوں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور جماعت اسلامی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں اس حکومتی دعوے کی تردید کرتی ہیں۔
دوسری جانب طلباء نے بھی اپنا اجتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
احتجاجی طلباء کے کوآرڈینیٹر ناہید اسلام نے اتوار کو پولیس ہیڈکوارٹر سے ایک ویڈیو پیغام میں تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا،''سرکاری ملازمت کے کوٹہ سسٹم میں منطقی اصلاحات کا ہمارا بنیادی مطالبہ پورا ہو گیا ہے۔‘‘ ان کے چھوٹے بھائی نے خبر رساں ادارے روئٹرزکو بتایا کہ ناہید اسلام مظاہرین کے ان تین رہنماؤں میں شامل تھے، جنہیں پولیس نے اپنی تحویل میں ہسپتال میں زیر علاج رکھا ہوا تھا۔
پولیس کے مطابق یہ اقدام ان رہنماؤں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔
ش ر⁄ م ا (روئٹرز)