’’بنگلہ دیش میں موسمیاتی تبدیلی اور توانائی‘‘ کے موضوع پر بون میں پہلی بین الاقوامی کانفرنس
20 جولائی 2011بون میں ہونے والی اس پریس کانفرنس میں مختلف اعلٰی تعلیمی اداروں کے اساتذہ نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ بنگلہ دیش اسڈڈیز اور ڈویلپمینٹ کے پروفیسر غلام ابو ذکریا نے موضوع کی مناسبت سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’بنگلہ دیش میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کی سطح کافی حد تک بلند ہو رہی ہے۔ اس سے زراعت کا شعبہ متاثر ہو رہا ہے۔ اگر اسی طرح پانی کی سطح بلند ہوتی رہی توبہت جلد ہی زرعی پیداوار ختم ہو جائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا اشیائے خورد نوش کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور بےروزگاری میں خطرناک حد تک کا اضافہ ہو جائے گا ‘‘۔
یونیورسٹی آف ہائڈلبرگ کے پروفیسر وولف گانگ پیٹرز زنگل نےکہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک توانائی کی کمی بھی ہے۔ اگر اس پر فوری توجہ نہ دی گئی تو نہ صرف بنگلہ دیش متاثر ہوگا بلکہ پورا جنوبی ایشا اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کانفرنس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بلانے کا مقصد یہی ہے کہ پوری دنیا میں اس اہم موضوع کے بارے میں شعور بیدار کیا جائے۔
پریس بریفنگ میں شریک ڈاکٹر مظہر اسلام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ ’’ اگر صیحی وقت پر ہم نے قدم نہ اٹھایا اور پانی کی سطع اسی طرح بلند ہوتی رہی تو بنگلہ دیش اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہوگا۔ ملازمت کے مواقع ختم ہو جائیں گے اور ملک میں بیروزگاری بڑھ جائےگی۔ اس لیے اس کانفرنس کا بنیادی مقصد اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف کولون کے پروفیسر ڈاکٹر ہارٹ موٹ ولف نے توانائی کے متبادل ذرائع کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ قابل تجدید ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی اس مسئلے کا ایک ممکن حل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بنگلہ دیش میں متعدد ایسے منصوبوں پرکام کر رہے ہیں، جن میں شمسی توانائی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے بقول ’’ اس طرح توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی واقع ہو گی۔ ساتھ ہی لوگوں کی زندگی میں آسانی اور خوشحالی آ سکتی ہے‘‘۔
رپورٹ: راحل بیگ اور سائرہ ذوالفقار
ادارت : عدنان اسحاق