بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے جاری: ایک شخص ہلاک، درجنوں زخمی
10 نومبر 2013بنگلہ دیش میں یہ تازہ مظاہرے حکومت کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کے آغاز کے بعد ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات سے قبل مستعفی ہو جائیں اور ملک میں ایک عبوری حکومت قائم کریں، جو شفاف پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے۔ تاہم حکومت کی جانب سے اب تک اپوزیشن کے اس مطالبے کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔ حکومتی موقف ہے کہ عام انتخابات اسی کی نگرانی میں ہوں گے۔
اتوار کے روز ملک کے مختلف علاقوں میں پولیس کے ساتھ حکومت مخالفین کی جھڑپوں میں اب تک ایک شخص کی ہلاکت اور متعدد افراد کے زخمی ہو جانے کی اطلاعات ہیں۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سکیورٹی فورسز اپوزیشن رہنماؤں اور کارکنان کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ عوامی احتجاج کی شدت کو کسی طرح کم کیا جا سکے۔
گزشتہ روز پولیس نے علی الصبح بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق نائب وزیر اعظم اور پارٹی لیڈر خالدہ ضیاء کے دو اہم رفقاء کو حراست میں لے لیا تھا۔ اس سے ایک روز قبل اسی جماعت کے دیگر دو اہم رہنماؤں کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان گرفتاریوں کے بعد پہلے سے اعلان کردہ تین روزہ ہڑتال کے دوراینے میں اضافے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں سے جاری اس ملک گیر احتجاج میں اب تک کم از کم 18 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ تازہ ترین شہری ہلاکت چٹاگانگ شہر میں اتوار کی صبح ہوئی۔ حکومت ان پرتشدد کارروائیوں کی ذمہ داری اپوزیشن پر عائد کر رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اب تک گرفتار کیے گئے اپوزیشن رہنماؤں اور کارکنان کو آئندہ جمعرات کے روز تک عدالت میں پیش کیا جائے گا اور تب تک انہیں جیل ہی میں رہنا ہو گا۔
پولیس کے مطابق صرف ان افراد کو حراست میں لیا جا رہا ہے، جو املاک یا پولیس پر حملوں میں مصروف ہیں اور ان افراد کے خلاف امن عامہ میں خلل ڈالنے کے الزام کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔