بنگلہ دیش میں ہندو مندروں پر انتہاپسندوں کے حملے
1 نومبر 2016بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ ملک میں شدت پسند انٹرنیٹ کی سخت نگرانی کر رہے ہیں تاکہ ایسی چیزوں کو اقلیتوں کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کیا جائے۔
بنگلہ دیشی علاقے براہمن باریا میں اتوار 31 اگست کو مندروں پر حملے فیس بک پر فوٹوشاپ کے ذریعے بنائی گئی اس تصویر کے بعد ہوئے، جس میں ایک ہندو دیوتا کو مسلمانوں کے مقدس ترین مقام خانہء کعبہ کے اندر بیٹھا دکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ مسلم شدت پسندوں کی جانب سے اس تصویر کو فیس بک پر لگانے کا الزام ایک ہندو مچھیرے پر عائد کیا گیا تھا، جس کے بعد ہندو برادری کے قریب سو مکانات اور پانچ مندروں پر حملے کیے گئے۔
ماضی میں بھی فیس بک کی پوسٹس کے تناظر میں انتہاپسندوں کی جانب سے اقلیتوں پر حملے دیکھنے میں آتے رہے ہیں۔ ان انتہاپسندوں کا کہنا ہے کہ ایسی پوسٹس کے ذریعے مسلمانوں کے ’جذبات مجروح‘ کیے جا رہےہیں۔
ہندو وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن جیتریموئے بارُونا کا کہنا ہے کہ انتہاپسند مسلمان سوشل میڈیا کو اقلتیوں پر حملے کے لیے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
رواں برس جولائی میں بھی ایک ہندو مندر پر حملے میں ایک ہندو رضاکار کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ بنگلہ دیش اقلتیوں کے حوالے سے کسی حد تک ایک پرامن ملک تھا، تاہم حالیہ کچھ برسوں میں وہاں اقلتیوں پر شدت پسندوں کے حملوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے اور ہندوؤں کی جانب سے بنگلہ دیش چھوڑ کر بھارت کی جانب نقل مکانی کے واقعات بھی دیکھے جا رہے ہیں۔
ہندو بنگلہ دیش کی 160 ملین کی آبادی کے دس فیصد کے قریب ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت عوامی لیگ خود کو ایک سیکولر جماعت قرار دیتی ہے، تاہم اس جماعت کے دورِ اقتدار میں اقلیتوں کے خلاف شدت پسندانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔