بنگلہ دیش کا سیاسی بحران
29 اکتوبر 2013حزب اختلاف کی اپیل پر ہونے والی ہڑتال کا مقصد ملک کے وزیراعظم پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھانا ہے۔ بنگلہ دیش کی ایوان صنعت و تجارت کی فیڈریشن نے ملک کے موجودہ سیاسی بحران پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ ویک اینڈ سے جاری ہڑتال اور ملک کے مختلف علاقوں میں شورش اور تشدد کی زد میں آ کر 15 افراد ہلاک ہو چُکے ہیں۔ بنگلہ دیش کی اس مرکزی تجارتی فیڈریشن نے حکومت اور اپوزیشن دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ آپس کے اختلافات کو مکالمت کے ذریعے دور کریں۔
دریں اثناء دارالحکومت ڈھاکا سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق آج منگل کو ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے دیسی ساختہ بم دھماکے ہوئے ہیں۔ ڈھاکا انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار شیخ معروف حسن کے مطابق ڈھاکا میں ایک دیسی ساختہ بم دھماکے کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار بُری طرح زخمی ہوا ہے جب کہ گزشتہ اتوار سے اس قسم کی دہشت گردانہ کارروائی میں متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کا یہ سیاسی بحران دراصل دو اہم سیاستدانوں کے مابین پُرانی رقابت کا نتیجہ ہے۔ وزیراعظم شیخ حسینہ اور اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کے مابین ایک عرصے سے چلی آ رہی دشمنی رہ رہ کر ملکی استحکام اور امن میں خلل کا سبب بنتی ہے۔ حالیہ ہڑتال بھی اسی کی ایک کڑی ہے جس کے دوران گزشتہ تین روز سے حکومت مخالفین اور پولیس اور حکمران جماعت کے حامیوں کے مابین مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔
وزیراعظم حسینہ واجد نے گزشتہ ہفتے کے روز اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کے ساتھ براہ راست بات چیت کی تھی اور ان سے ہڑتال کی کال نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کی ان دو خاتون رہنماؤں کے مابین یہ گفتگو قریب ایک دہائی کے دوران ہونے والی پہلی بات چیت تھی۔ تاہم حسینہ واجد کی درخواست کے باوجود خالدہ ضیاء نے ہڑتال منسوخ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس ہڑتال کو آج منگل کو ختم ہوجانا تھا۔ خالدہ ضیاء حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ اور ایک عبوری انتظامیہ کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہیں جو آئندہ برس کے مجوزہ انتخابات کی نگرانی کرے۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت معتبر الیکشن کروانے کی اہل نہیں ہے اس لیے مجوزہ انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتوں کے باہر سے ایک نگران حکومت کو یہ ذمہ داری سونپی جائے، بصورت دیگر اپوزیشن انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی۔
حسینہ واجد نے حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے اشتراک پر مشتمل ایک نگران حکومت کے قیام کی پیشکش کی ہے جو مجوزہ الیکشن کی نگرانی کرے گی۔
جنوبی ایشیا کی پارلیمانی جمہوریت، بنگلہ دیش میں 1991 ء سے اب تک باری باری حسینہ واجد اور خالدہ ضیا اقتدار میں رہی ہے۔ تاہم اقتدار کی پُرامن منتقلی کا مسئلہ ہنوز دونوں رہنماؤں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
خالدہ ضیاء کی نیشنلسٹ پارٹی بی این پی اور اس کی اتحادی جماعتیں موجودہ آئینی شقوں کے باعث انتخابات میں شرکت کرنے سے اجتناب کر رہی ہیں۔ یہ آئینی شقیں ملک میں غیر جانبدار، نگران حکومت یا موجودہ وزیرِاعظم کو عبوری وقفے کے دوران مستعفی ہونے کی اجازت نہیں دیتیں جب کہ حزب مخالف کو اس بات کا خدشہ ہے کہ حکومت اقتدار میں رہتے ہوئے انتخابات میں دھاندلی کرے گی۔