1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے سربراہ کو سزائے موت سنا دی گئی

عصمت جبیں29 اکتوبر 2014

بنگلہ دیش میں آج بدھ 29 اکتوبر کے روز جماعت اسلامی کے 71 سالہ سربراہ مطیع الرحمان نظامی کو جنگی جرائم کی خصوصی عدالت نے 1971 کی جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے الزامات میں سزائے موت کا حکم سنا دیا۔

https://p.dw.com/p/1Ddjs
تصویر: AFP/Getty Images

ڈھاکا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اسٹیٹ پراسیکیوٹر نے صحافیوں کو بتایا کہ ملزم مطیع الرحمان نظامی کے خلاف بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے علاوہ ایذا رسانی اور جنسی زیادتیوں کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات ثابت ہو گئے تھے۔ اسٹیٹ پراسیکیوٹر محمد علی کے بقول ملزم کے جرائم کی نوعیت کے پیش نظر وار کرائمز ٹریبیونل نے اسے سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے۔

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جماعت اسلامی کے موجودہ رہنما نظامی ماضی میں ملکی وزیر اور قومی پارلیمان کے رکن رہ چکے ہیں۔ انہیں سنائی جانے والی سزائے موت کے خلاف جماعت اسلامی کے کارکنوں کی طرف سے پرتشدد مظاہرے دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت جنگی جرائم کی اس ’متنازعہ‘ خصوصی عدالت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔

Matiur Rahman Nizami Bangladesch Festnahme Archiv 2010
بنگلہ دیشی پولیس کے مطابق نظامی کو آج سنائی جانے والی سزائے موت کی خبر عام ہوتے ہی جماعت اسلامی کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیےتصویر: AFP/Getty Images

مطیع الرحمان نظامی کی پارٹی، جماعت اسلامی نے ایک بیان میں اپنے رہنما کو سنائی جانے والی سزائے موت کی مذمت کی ہے۔ بیان کے مطابق اس فیصلے نے بنگلہ دیشی عوام کو سکتے میں ڈال دینے کے علاوہ انتہائی افسردہ بھی کر دیا ہے اور اس عدالتی فیصلے کے خلاف کل جمعرات سے پورے ملک میں 24 گھنٹے کی عام ہڑتال کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک اور ملک گیر احتجاجی ہڑتال آئندہ اتوار کے روز شروع کی جائے گی، جو پورے دو دن یا 48 گھنٹے جاری رہے گی۔

بنگلہ دیشی پولیس کے مطابق نظامی کو آج سنائی جانے والی سزائے موت کی خبر عام ہوتے ہی جماعت اسلامی کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے، جس دوران نظامی کے آبائی علاقے میں 90 کے قریب مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔

عدالتی فیصلے کے بعد ملزم مطیع الرحمان نظامی کے وکیل صفائی تاج الاسلام نے ڈھاکا میں صحافیوں کو بتایا کہ وہ اور دیگر وکلائے صفائی ٹریبیونل کے فیصلے پر انتہائی ناخوش اور غیر مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سزائے موت کے اس حکم کے خلاف ان کے مؤکل کی طرف سے ملکی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی۔

Matiur Rahman Nizami Bangladesch Archiv 2005
جماعت اسلامی کے 71 سالہ سربراہ مطیع الرحمان نظامی پر 1971 کی جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے الزامات تھےتصویر: picture-alliance/epa/Abir Abdullah

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے یہ ٹریبیونل سن 2010 میں قائم کیا تھا۔ اس کا مقصد بنگلہ دیش کی، جو کہ ماضی میں مشرقی پاکستان تھا، پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران ڈھاکا حکومت کے بیانات کے مطابق قریب تین ملین انسانوں کی ہلاکت اور ہزاروں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات کی چھان بین کرنا اور مجرموں کو سزائیں سنانا تھا۔

بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ ڈھاکا میں موجودہ حکومت نے اس ٹریبیونل میں چلائے جانے والے مقدمات کو ملک کی دو سب سے بڑی اپوزیشن جماعتوں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے خلاف ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

اس خصوصی عدالت کی طرف سے ملکی اپوزیشن کے سرکردہ موجودہ اور سابقہ رہنماؤں کے خلاف مقدمات میں سنائے جانے والے فیصلوں کے خلاف اس سال کے دوران ہونے والے پرتشدد احتجاجی مظاہروں میں اب تک 100 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔

بنگلہ دیش میں ان مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالت انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل کہلاتی ہے حالانکہ یہ ڈھاکا حکومت کی قائم کردہ ہے اور اس کا اپنی غیر جانبداری کے حوالے سے کسی بین الاقوامی یا عالمی ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نیو یارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس خصوصی عدالت نے جس طرح مقدمات کی سماعت کی اور ان کے لیے جو طریقے اپنائے، وہ کسی بھی طرح سے بین الاقوامی معیارات پر پورے نہیں اترتے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید