1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی خواتین سعودی عرب میں جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار

عاطف بلوچ زبیر احمد
9 ستمبر 2018

’جب میں واپس وطن لوٹی تو بیس دنوں کے لیے مجھے ہپستال میں داخل رہنا پڑا۔ نہ میں چل سکتی تھی اور نہ ہی کچھ کھا سکتی تھی‘، یہ کہنا ہے پچیس سالہ شیفالی بیگم کا، جوبطور ڈومیسٹک ورکر سعودی عرب کام کرنے کی غرض سے گئی تھیں۔

https://p.dw.com/p/34a0w
Äthiopische Hausfrauen in Saudiarabien und VAE
تصویر: DW/S. Shibru

بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی پچیس سالہ شیفالی بیگم نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں قیام کے دوران ان کو بری طرح استحصال کا شکار بنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے مالکان انہیں مارتے پیٹتے بھی تھے، ’’وہ مجھے تاروں اور ڈنڈوں سے پیٹتے تھے۔ میری رانوں پر اس تشدد کے نشانات ابھی تک موجود ہیں۔‘‘

شیفالی کے مطابق اسے دن میں صرف ایک وقت کا کھانا ہی دیا جاتا تھا، ’’میں جب بھی کھانا مانگتی تو وہ مجھے تشدد کا نشانہ بناتے۔‘‘ شیفالی کا تعلق مانک گنج ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ وہ اچھے مستقبل اور گھر والوں کی مالی مدد کی خاطر بطور ڈومیسٹک ورکر سعودی عرب گئی تھی۔ تاہم جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ وہ سعودی عرب میں نہیں رہ سکتی۔

شیفالی کے مطابق تین ماہ بعد ہی اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ  سعودی عرب میں کام نہیں کرے گی، ’’جس ایجنسی کے ذریعے میں کام کرنے سعودی عرب گئی تھی، جب اس نے مجھے واپس روانہ کرنے کا انتظام کیا تو اس سے ایک روز قبل ہی میرے مالکان نے مجھے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ میرے مالکان کی بیٹی نے میری ایک انگلی بھی توڑ دی۔‘‘

Cycling in Jeddah  Saudi women embrace change Wandel für Frauen in Saudi Arabien
سعودی عرب میں غیر ملکی خواتین بطور ملازمہ مختلف گھروں میں خدمات سر انجام دیتی ہیںتصویر: Reuters/R. Baeshen

شیفالی کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ سعودی عرب میں اس کے مالکان نے اسے دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ’تشدد کے راز افشا‘ کیے تو وہ اسے ہلاک کر دیں گے، ’’وہ مجھے ٹیلی فون پر میرے گھر والوں سے بات کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے اور نہ ہی میری مکمل اجرت دیتے تھے۔‘‘

شیفالی ایسی ساڑھے چھ  ہزار بنگلہ دیشی خواتین میں سے ایک ہیں، جو سن دو ہزار پندرہ کے بعد سے سعودی عرب میں کام ترک کر کے واپس وطن لوٹ چکی ہیں۔ شیفالی جیسی خواتین کی مدد کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے BRAC کے مطابق سن 1991 تا سن 2005 بتیس ہزار تین سو تیرہ خواتین سعودی عرب میں کام کرنے کی غرض سے منتقل ہوئیں۔ تاہم ڈھاکا اور ریاض حکومتوں کے مابین سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والے ایک سمجھوتے کے بعد بنگلہ دیش سے سعودی عرب جانے والی خواتین کی تعداد میں ایک دم تیزی پیدا ہو گئی۔

غیر سرکاری ادارے BRAC کے مطابق اس ڈیل کے بعد گزشتہ ساڑھے تین برسوں کے دوران دو لاکھ اٹھارہ ہزار سے زائد بنگلہ دیشی خواتین بطور ڈومیسٹک ورکرز سعودی عرب جا چکی ہیں۔ اس ادارے سے منسلک شفیع الحسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سعودی عرب میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والوں  باشندوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالکان کے ہاتھوں خواتین کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، انہیں تنخواہوں کے معاملے پر استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

شفیع الحسن نے مزید کہا کہ ان خواتین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے جبکہ انہیں جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ان شکایات کا ازالہ کرنے کی خاطر فوری اقدامات کرے۔ دوسری طرف ڈھاکا حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان شکایات کے تناظر میں سعودی حکومت سے رابطے میں ہے اور ان مسائل کے خاتمے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کئی حلقوں کے خیال میں سعودی عرب میں بنگلہ دیشی خواتین کی صورتحال اتنی بھی ابتر نہیں، جتنا کہ میڈیا میں اچھالا جا رہا ہے۔