بنگلہ دیشی طلباء کا احتجاج دوبارہ شروع کرنے کا عزم
28 جولائی 2024بنگلہ دیش میں طلباء نے حکومت کے زیر حراست اپنے متعدد رہنماؤں کو رہا نہ کیے جانے کی صورت میں دوبارہ احتجاج شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے طلباء کے احتجاج کے دوران پولیس اور ہسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق تشدد کے واقعات میں کم از کم 205 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ طلباء کے یہ مظاہرے پندرہ سال سے اس جنوب ایشائی ملک میں برسر اقتدار رہنے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھے۔
ان مظاہروں پر قابو پانے کے لیے سڑکوں پرفوج کا گشت اور ملک گیر کرفیو کا نفاذ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے کے بعد بھی برقرار ہے اور پولیس نے کم از کم نصف درجن طلباء رہنماؤں سمیت ہزاروں مظاہرین کو پکڑ رکھا ہے۔
ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف اجتجاج کرنے والے ''امتیازی سلوک کے خلاف طلباء‘‘ نامی تنظیم کے ارکان کا کہنا ہے کہ وہ احتجاجی مظاہروں پر ایک ہفتے سے لگائی گئی خود ساختہ پابندی اٹھا لیں گے۔ اس طلباء تنظیم کے ایک رہنما عبدالحنان مسعود نے ہفتے کے روز دی گئے ایک آن لائن بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ گروپ کے سربراہ ناہید اسلام اور دیگر کو ''رہا کیا جانا چاہیے اور ان کے خلاف مقدمات بھی واپس لیے جانے چاہییں۔‘‘
حکام کے ہاتھوں گرفتاری کے ڈر سے روپوش مسعود نے ایک نامعلوم مقام سے بات کرتے ہوئے مظاہرین کی ہلاکتوں کے ذمہ دار حکومتی وزراء اور پولیس افسران کے خلاف ''نظر آنے والی کارروائیوں‘‘ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا، ''بصورت دیگر، امتیازی سلوک کے خلاف طلباء پیر سے سخت احتجاج شروع کرنے پر مجبور ہوں گے۔‘‘ ناہید اسلام اور احتجاجی گروپ کے دو دیگر سینئر ارکان کو جمعہ کے روز دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک ہسپتال سے زبردستی ڈسچارج کر دیا گیا اور پھر اس کے بعد سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ ایجنسی کے اہکاروں کے ایک گروپ نے انہیں اٹھا لیا تھا۔
گزشتہ ہفتے کے آغاز پر ناہید اسلام نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ وہ ہسپتال میں زیر علاج تھے کیونکہ پولیس نے انہیں حراست کے پہلے دور میں زخمی کر دیا تھا۔ اس طالب علم رہنما کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جان کے لیے خوف زدہ ہیں۔
طلباء حفاظتی تحویل میں
اس سے قبل بنگلہ دیشی وزیر داخلہ اسد الزمان خان نے جمعہ کے روز صحافیوں کو بتایا کہ ان تینوں کو ان کی اپنی حفاظت کے پیش نظر حراست میں لیا گیا تھا لیکن انہوں نے تصدیق نہیں کی کہ آیا انہیں باضابطہ طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش کے سب سے بڑے روزنامہ پرتھم الو کے مطابق بدامنی شروع ہونے کے بعد سے ملک بھر میں کم از کم 9000 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ جبکہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں نافذ کیا گیا کرفیو بدستور نافذ ہے، اس میں ہفتے کے دورانبتدریج نرمی کی گئی ہے، یہ حسینہ حکومت کے اس اعتماد کی علامت ہے کہ آرڈر بتدریج بحال ہو رہا ہے۔
موبائل انٹرنیٹ نیٹ ورک بحال
بنگلہ دیش کا موبائل انٹرنیٹ نیٹ ورک بدامنی کے عروج پر ملک گیر بلیک آؤٹ کے گیارہ دن بعد بحال کر دیا گیا۔ فکسڈ لائن براڈ بینڈ کنکشن منگل کو پہلے ہی بحال کر دیے گئے تھے لیکن قومی ٹیلی کام ریگولیٹر کے مطابق بنگلہ دیش کے 141 ملین انٹرنیٹ صارفین کی اکثریت دنیا سے جڑنے کے لیے اپنے موبائل آلات پر انحصار کرتی ہے۔ حسینہ کے استعفیٰ کے مطالبے کے لیے اتوار کو ڈھاکہ میں ایک چھوٹی ریلی نکالی گئی، جسے پولیس نے تیزی سے منتشر کر دیا۔
بنگلہ دیش میں ان مظاہروں کا آغاز اس ماہ ایک سرکاری کوٹہ اسکیم کو دوبارہ شروع کرنے پر شروع ہوا، اس سکیم کے تحت تمام سرکاری ملازمتوں میں سے نصف سے زیادہ مخصوص گروپوں کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 18 ملین نوجوان بنگلہ دیشی بے روزگار ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کوٹے کا استعمال حکمران جماعت عوامی لیگ کے وفاداروں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے ڈھیر لگانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے ریزرو ملازمتوں کی تعداد میں کمی کر دی لیکن کوٹہ سسٹم کو مکمل طور پر ختم کرنے کے مظاہرین کے مطالبات کو پورا نہیں کیا۔ حسینہ واجد 2009 سے بنگلہ دیش پر حکمران ہیں اور جنوری میں بغیر کسی حقیقی اپوزیشن کی موجودگی میں وہ اپنا لگاتار چوتھا الیکشن جیتی تھیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے ان کی حکومت پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کا غلط استعمال کر کے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے۔ ان کی حکومت پر اپوزیشن کے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے الزامات بھی ہیں۔
ش ر⁄ ع آ (اے ایف پی)