بنگلہ دیشی قوم مذہبی اتحاد قائم رکھے، محمد یونس کی اپیل
10 اگست 2024بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے قوم سے مذہبی اتحاد و یگانگت قائم رکھنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے یہ اپیل آج ہفتے کے روز ملک میں شیخ حسینہ کی سابقہ حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران پولیس کی گولی سے ہلاک ہونے والے ایک طالب علم کی روتی ہوئی ماں کو گلے لگاتے ہوئے کیا۔
یہ عوامی مظاہرے شیخ حسینہ کے پندرہ سالہ دور حکمرانی کے خاتمے کا سبب بنے۔
نوبل انعام یافتہ 84 سالہ ماہر اقتصادیات اور بینکر محمد یونس اس ہفتے ہی یورپ سے واپس وطن واپس لوٹے ہیں تاکہ وہ ایک عارضی انتظامیہ کی قیادت کر سکیں، جو ملک میں بد نظمی کے خاتمے اور جمہوری اصلاحات کو نافذ کرنے کے چیلنج کا سامنا کر رہی ہے۔
محمد یونس نے آج صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' ہماری ذمہ داری ایک نیا بنگلہ دیش بنانا ہے۔‘‘
دوسری جانب سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک کی ہندو اقلیت کے خلاف کیے گئے کئی انتقامی حملوں نے پڑوسی ملک بھارت میں خدشات کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیشں کے اندر بھی خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔
'ابو سعید اب ہر گھر میں ہے‘
محمد یونس نے آج شمالی شہر رنگ پور کے دورے کے دوران گزشتہ ماہ کی بدامنی کے دوران مارے جانے والے پہلے طالب علم ابو سعید کی یاد تازہ کرتے ہوئے عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کی۔ انہوں نے مزید کہا، ''ابو سعید اب ہر گھر میں ہیں۔ جس طرح وہ کھڑے ہوئے تھے، ہمیں بھی ویسے ہی کھڑا ہونا ہے۔ ابو سعید کے بنگلہ دیش میں کوئی تفرقات نہیں ہیں۔‘‘
پچیس سالہ سعید کو سولہ جولائی کو شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف طلباء کی زیر قیادت مظاہروں کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن کے آغاز پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ان کی والدہ روتے ہوئے محمد یونس سے لپٹ گئیں، جو اب ملک کا انتظام سنبھالنے والی ''مشاورتی‘‘ کابینہ کے اراکین کے ساتھ ان کے پاس تعزیت کے لیے آئے تھے۔ اس موقع پر محمد یونس بھی جذباتی دکھائی دیے اور عبوری کابینہ کے ایک رکن اور شیخ حسینہ کے خلاف فیصلہ کن طلبہ مظاہروں کی قیادت کرنے والے 26 سالہ سوشیالوجی کے گریجویٹ ناہید اسلام بھی اپنے لیڈر کے پہلو میں کھڑے ہوئے رو پڑے۔
ہندو اقلیت پر حملے
حسینہ پیر کے روزمستعفی ہونے کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے پڑوسی ملک بھارت فرار ہو گئی تھیں۔ ان کی حکومت پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام تھا، جس میں ان کے ہزاروں سیاسی مخالفین کے ماورائے عدالت قتل بھی شامل تھے۔
حسینہ کے جانے کے فوراً بعد بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے ملکیتی کچھ کاروباروں اور گھروں پر حملے کیے گئے۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں ہندوؤں کی مذہبی اقلیت کو کچھ لوگ سابقہ وزیر اعظم حسینہ کے حامیوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔
بنگلہ دیشی ہندو ملک کی آبادی کا تقریباً آٹھ فیصد ہیں۔ حالیہ حملوں کے بعد سے سینکڑوں ہندو بھارتی سرحد پر پہنچ چکے ہیں اور وہ اسے پار کرنا چاہتے ہیں۔
حسینہ کی اقتدار سے رخصتی اور دہلی میں پناہ لینے نے بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف نفرت کو بڑھا دیا ہے۔ خیال رہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے فیصلہ کن فوجی کردار ادا کیا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کی حالیہ صورت حال کے پیش نظر جمعرات کو ''ہندوؤں اور دیگر تمام اقلیتی برادریوں کی حفاظت اور تحفظ‘‘ پر زور دیا۔
حسینہ کی رخصتی تک ہونے والی بدامنی میں 450 سے زائد افراد مارے گئے تھے، جن میں درجنوں پولیس اہلکار بھی شامل تھے جو مظاہروں پر پابندی کے دوران مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے تھے۔
'امن وامان کا قیام پہلی ترجیح‘
اس تناظر میں محمد یونس نے وطن واپسی سے قبل ہی کہہ دیا تھ کہ ملک میں امن و امان کی بحالی ان کی ''پہلی ترجیح‘‘ ہے۔
تاہم ان کی ان کوششوں میں مشکلات کا ایک سبب پولیس یونین کی جانب سے منگل کو کیا گیا ہڑتال کا اعلان تھا۔ پولیس یونین کا کہنا تھا کہ اس کے اراکین ُاس وقت تک کام پر واپس نہیں آئیں گے جب تک ان کی حفاظت کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی۔ تاہم اب بنگلہ دیش کی پولیس حکام کا کہنا ہےکہ ملک کے نصف سے زیادہ پولیس سٹیشن ہفتے تک دوبارہ کھل گئے ہیں۔
ان تھانوں کی عمارتوں کی حفاظت فوج کے سپاہی کر رہے ہیں۔ فوج بنگلہ دیش میں ایک ایسا ادارہ ہے، جو پولیس سے زیادہ عوامی احترام رکھتا ہے کیونکہ اس نے سابقہ حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کو بزور طاقت روکنے کا انتخاب نہیں کیا تھا۔
ش ر⁄ م ا (اے ایف پی)