بنگلہ دیشی ماہی گیروں پر فائرنگ دفاع میں کی گئی، میانمار
8 فروری 2017خبر رساں ادارے روئٹرز نے بنگلہ دیشی میڈیا کے حوالے سے آٹھ فروری بروز بدھ بتایا کہ اس گشتی کشتی کی طرف سے بنگہ دیشی ماہی گیروں پر فائرنگ دراصل خوف کی وجہ سے کی گئی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ میانمار کی بحریہ کی اس کشتی میں موجود دستوں کو یہ اندیشہ تھا کہ ان پر حملہ کیا جانے والا ہے۔ تاہم ڈھاکا حکومت نے اس کارروائی کو ’بلااشتعال جارحیت‘ قرار دیا ہے۔
دس ہزار روہنگیا جان بچا کر میانمار سے بنگلہ دیش پہنچ گئے
میانمار: فوجی کارروائی، روہنگیا مسلمانوں پر قیامت گزر گئی
ہزارہا روہنگیا مسلمان ایک ویران جزیرے پر آباد کرنے کا فیصلہ
میانمار کے ایک سرکاری اخبار ’گلوبل نیو لائٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملکی گشتی بوٹ کا بنگلہ دیشی ماہی گیروں کی آٹھ کشتیوں سے سامنا ہوا، جن میں سے پانچ ملکی سمندری حدود میں تھیں، ’’ان غیر قانونی کشتیوں نے میانمار کی پیٹرولنگ بوٹ کا محاصرہ کرنا چاہا، جس سے دستوں کو لگا کہ یہ ان پر حملہ کرنے والی ہیں۔‘‘
ملکی سکیورٹی حکام کے حوالے سے اس اخبار نے مزید لکھا کہ سلامتی کی صورتحال کو یقینی بنانے کی خاطر ملکی دستوں نے فائرنگ کی، جس کا مقصد اپنا دفاع تھا۔ اس رپورٹ میں البتہ یہ نہیں بتایا گیا کہ بنگلہ دیشی کشتیوں پر سوار افراد غیر مسلح تھے۔
اس واقعے سے دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اسی سمندری سرحدی علاقے میں گزشتہ برس نو اکتوبر کو بھی فائرنگ کا ایک واقعہ رونما ہوا تھا، جس کے نتیجے میں میانمار کے نو پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔ میانمار کی حکومت اس حملے کے لیے روہنگیا مسلم باغیوں پر الزام دھرتی ہے۔ اس کارروائی کے بعد میانمار نے روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا، جو بنگلہ دیش اور میانمار کے مابین بھی تناؤ کا باعث بنا ہوا ہے۔
نو اکتوبر کے واقعے کے بعد میانمار سے تقریباﹰ ستّر ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔ ڈھاکا حکومت کے مطابق نئے مہاجرین کی آمد کے علاوہ ملک میں پہلے ہی ہزاروں روہنگیا مہاجرت کر کے آ چکے تھے۔ ان میں سے بہت سے مہاجرین نے الزام عائد کیا ہے کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز اس کمیونٹی کے افراد کو ماورائے عدالت طریقوں سے ہلاک کرنے کے علاوہ خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنا رہی ہیں جبکہ اس مذہبی اقلیت کی املاک کو بھی تباہ کیا جا رہا ہے۔
تاہم میانمار میں حکمران سیاسی جماعت کی سربراہ آنگ سان سوچی ان الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔ نوبل امن انعام یافتہ سوچی کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین کے زیادہ تر الزامات جھوٹے ہیں۔ اس بحران کے تناظر میں بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی تنقید پر سوچی کا کہنا ہے کہ یہ میانمار کا اندرونی معاملہ ہے۔