بنگلہ دیشی پولیس دو سو ساٹھ لاپتہ نوجوانوں کی تلاش میں
20 جولائی 2016بنگلہ دیش کے ایک سکیورٹی افسر نے آج خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ یہ اقدام حال ہی میں ڈھاکا میں ہونے والے خونریز حملے کے بعد عسکریت پسندوں تک پہنچنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ خیال رہے کہ رواں ماہ کی پہلی تاریخ کو ڈھاکا کے ایک مہنگے علاقے میں موجود کیفے پر پانچ نوجوان افراد نے حملہ کیا تھا جس میں بائیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر غیر ملکی شامل تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے قبول کی تھی۔ حملہ آوروں میں سے تین کا تعلق ڈھاکہ کے متمول گھرانوں سے تھا جو اپنے خاندانوں سے کئی ماہ پہلے سے رابطہ ختم کر چکے تھے۔
حکام نے اس حملے کی ذمہ داری ایک مقامی عسکریت پسند گروہ پر عائد کی ہے تاہم سکیورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حملہ جس انداز اور جس شدت سے کیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے تانے بانے بین الاقوامی نیٹ ورک سے ملتے ہیں۔ ڈھاکا کے کیفے میں ہونے والے حملے کے بعد بنگلہ دیشی حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر ان کے بیٹے گھروں سے لاپتہ ہیں تو وہ حکام سے رابطہ کریں۔
پولیس کی قیادت میں ’ریپڈ ایکشن بٹالین ‘ یا آر اے بی، جو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہے، کے ایک اعلی افسر نے بتایا کہ ایسے افراد کے اہل خانہ اور خفیہ ذرائع سے ملنے والی معلومات کے ذریعے اب تک جو فہرست مرتب کی گئی ہے اس کے مطابق 260 نوجوان گھروں سے لاپتہ ہیں۔ محمود خان نے جو آر اے بی کے قانونی اور میڈیا ونگ کے سربراہ ہیں، روئٹرز کو بتایا کہ لاپتہ جوانوں میں ریٹائرڈ فوجی افسروں، بیوروکریٹس اور تاجروں کے بیٹے بھی شامل ہیں۔ خان کے مطابق معلومات حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔
آر اے بی کے فیس بک صفحے پر شائع ہوئی لاپتہ افراد کی فہرست میں ایک سولہ سالہ لڑکا، ایک ڈاکٹر جس کے والد فوج میں تھے اور ایک شخص جسے سن 2013 میں دھماکا خیز مواد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا اور جو ضمانت پر رہائی کے بعد ملیشیا چلا گیا تھا، بھی شامل ہیں۔ مسلم اکثریت والے ملک بنگلہ دیش میں گزشتہ برسوں کے دوران مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے اور متعدد آزاد خیال بلاگرز، دانشوروں، مذہبی اقلیتوں کے ارکان اور غیر ملکی امدادی کارکنوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ نے ایک ویڈیو کے ذریعے خبر دار کیا ہے کہ ایسے حملے تب تک جاری رہیں گے جب تک دنیا بھر میں اسلامی قانون نافذ نہیں کر دیا جاتا۔ ویڈیو میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ڈھاکا کے کیفے پر حملے کا واقعہ آنے والی صورتحال کا محض ایک اشارہ تھا۔ اس ویڈیو میں بطور جنگجونظر آنے والے تین بنگلہ دیشی افراد بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔