1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی گارمنٹس ورکرز کے خلاف آنسو گیس کا استعمال

عصمت جبیں22 ستمبر 2013

بنگلہ دیش میں گارمنٹس فیکٹریوں کے ہزاروں کارکنوں نے اپنے لیے کم از کم ماہانہ تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے آج اتوار کو مسلسل دوسرے روز بھی اپنا احتجاج جاری رکھا۔

https://p.dw.com/p/19m26
تصویر: AFP/Getty Images

ڈھاکا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان ہزاروں کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ ان کے لیے کم از کم ماہانہ تنخواہ سو امریکی ڈالر کے برابر مقرر کی جائے۔ ان کارکنوں نے اپنا احتجاج کل ہفتے کے روز شروع کیا تھا۔ آج اس احتجاج کے دوسرے دن پولیس نے ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا اور ربر کی گولیاں بھی چلائیں۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق آج کے احتجاج کے دوران مظاہرین نے ملکی دارالحکومت کے نواح میں ان فیکٹریوں پر پتھراؤ کی بھی کوشش کی جہاں دنیا کے بڑے بڑے اسٹوروں کے لیے اعلیٰ برانڈز کے گارمنٹس تیار کیے جاتے ہیں۔

Bangladesh Ausschreitungen Streik
پولیس کو مظاہرین پرآنسو گیس استعمال کرنا پڑی اور ربر کی گولیاں بھی فائر کی گئیںتصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images

پولیس کے مطابق آج کے احتجاج کے دوران مظاہرین نے ڈھاکا کے مضافات میں ایک بڑی شاہراہ پر مارچ بھی کیا اور اسے ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔ کلیاکوئر پولیس کے سربراہ عمر فاروق نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ آج کے احتجاجی مظاہروں میں قریب چھ ہزار کارکنوں نے حصہ لیا۔ انہوں نے کہا، ’’ان مظاہرین نے چھ کے قریب گارمنٹس فیکٹریوں پر حملے کی کوشش بھی کی جس دوران پولیس کو آنسو گیس استعمال کرنا پڑی اور ربر کی گولیاں بھی فائر کی گئیں۔‘‘

بنگلہ دیش دنیا بھر میں گارمنٹس برآمد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور وہاں غیر ملکی کمپنیوں کے لیے گارمنٹس تیار کرنے والی فیکٹریوں کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار ہے۔ بنگلہ دیش کو اس کی برآمدات سے ہر سال 27 بلین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے اور اس میں سے 80 فیصد آمدنی کی وجہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی برآمدات ہوتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں گارمنٹس کی صنعت کے کُل قریب تین ملین کارکنوں میں سے اکثریت کو ماہانہ صرف 38 امریکی ڈالر فی کس کے برابر اجرت ملتی ہے۔

کارکنوں کا یہ فی کس ماہانہ معاوضہ دنیا بھر میں مزدوروں کو ملنے والی کم ترین ماہانہ تنخواہوں میں شمار ہوتا ہے۔ اب گارمنٹس فیکٹریوں کے ان کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی کم ازکم ماہانہ تنخواہ ایک سو امریکی ڈالر کے برابر مقرر کی جائے۔ کل ہفتے کے روز جب ایسے ہزار ہا کارکنوں نے اپنے لیے اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہڑتال شروع کی تھی تو ایسی کئی گارمنٹس فیکٹریاں مجبوراﹰ بند کرنا پڑ گئی تھیں۔

Bangladesch Ghulam Azam Urteil 15.07.2013
ہڑتال میں کم ازکم بیس ہزار کارکنوں نے حصہ لیاتصویر: picture-alliance/dpa

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ہفتے کے روز اس ہڑتال میں کم ازکم بیس ہزار کارکنوں نے حصہ لیا تھا۔ آج اتوار کے روز کئی فیکٹری مالکان یا ان کے نمائندوں نے اپنے اپنے اداروں میں موجود کارکنوں کو اس احتجاج میں حصہ لینے سے روک دیا۔ اس پر بہت سے مشتعل مظاہرین نے بیس کے قریب گارمنٹس فیکٹریوں کے باہر پتھراؤ بھی کیا۔ کلیاکوئر پولیس کے سربراہ عمر فاروق نے بتایا کہ آج اتوار کے روز احتجاجی مظاہرین نے ایک بڑی ہائی وے کو ایک گھنٹے کے لیے ٹریفک کے لیے بند رکھا جس کے بعد اس ہائی وے پر معمول کی آمد و رفت بحال ہو گئی۔

بنگلہ دیشی گارمنٹس فیکٹریوں کے مالکان احتجاجی کارکنوں کا مطالبہ پوری طرح تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ انہوں نے پیشکش کر رکھی ہے کہ عالمی معیشت کی خراب صورتحال کی وجہ سے وہ گارمنٹس فیکٹریوں کے کارکنوں کی کم ازکم ماہانہ تنخواہوں میں صرف بیس فیصد کا اضافہ کر سکتے ہیں جس کے بعد مقامی کرنسی میں کسی مزدور کی کم ازکم اوسط تنخواہ 3000 ٹکا سے بڑھ کر 3600 ٹکا ہو جائے گی۔ احتجاجی کارکن اس اضافے کو تسلیم کرنے پر ابھی تک تیار نہیں ہیں۔