بولان میں امام بارگاہ پر خود کش حملہ، کم از کم تیرہ ہلاکتیں
22 اکتوبر 2015وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے بقول بولان کے نواحی علاقے چھلگری میں ہونے والے اس خود کش حملے میں ہلاک ہونے و الے میں 3 کمسن بچے بھی شامل ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا "یہ خودکش حملہ نماز مغرب کے بعد کیا گیا ہے۔ حملہ آور نے برقعہ پہن رکھا تھا اور وہ امام بارگاہ میں اس مقام سے داخل ہوا جہاں خواتین کی مجلس ہو رہی تھی۔ خودکش حملہ آور نے مردوں کی مجلس عزاء کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا یا، جس سے 13 عزادار موقع پر ہلاک جبکہ 22 افراد زخمی ہوئے ہیں۔"
وزیر داخلہ نے مزید بتایا کہ خودکش حملے میں زخمی ہونے والے افراد میں آٹھ کی حالت تشویشناک ہے، جنہیں کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، " خود کش حملہ آور نے ایک کمسن بچے کو ہاتھ سے پکڑ رکھا تھا اس لیے آسانی سے خواتین کی مجلس میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا۔ اس حملے کے بعد بلوچستان بھر میں سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ حساس امام بارگاہوں کے باہر سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی جا رہی ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بروقت نمٹا جا سکے۔"
ایک عینی شاہد زوار حسین نے ڈی ڈبلیوکو ٹیلی فون پر بتایا کہ خود کش حملہ آور نے امام بارگاہ کےاحاطے میں خود کو دھماکے سے اڑایا۔ انہوں نے کہا، "میں امام بارگاہ کے عقب میں موجود تھا کہ اچانک سیاہ رنگ کے برقعے میں موجود ایک حملہ آور بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا اورمردانہ مجلس کے قریب پہنچتے ہی اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ پہلے ہم اسے خاتون سمجھ رہے تھے لیکن دھماکے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ وہ عورت نہیں ایک مرد تھا، جس کی عمر تقریبا 25 سے 22 سال کے قریب ہو گی۔ دھماکے سے امام بارگاہ کی عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اکثر زخمیوں کو مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت قریبی ہسپتال پہنچایا۔"
بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق خودکش حملے میں 20 کلو گرام سے زائد دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا ہے۔ حملے کے بعد سیکورٹی فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیاہے۔ اس دوران اب تک 15 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن کے قبضے سے اسلحہ و بارود برآمد کرنے کا دعوٰی کیا گیا ہے۔ بولان کے سینئر پولیس افسر جاوید احمد نے بتایا کہ کہ خودکش حملہ آرو کا سر مل گیا ہے اور جائے وقوعہ سے تمام شواہد اکھٹے کر لیے گئے ہیں جن کی بنیاد پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "ہماری تحقیقاتی ٹیموں نے موقع کا نقشہ تیار کر لیا ہے۔ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ حملے میں ملوث نیٹ ورک کا سراغ لگایا جائے۔ یہ ایک بزدلانہ حملہ تھا، جس میں کمسن بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ خودکش حملے میں بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔"جاو ید احمد کا مزید کہنا تھا کہ خود کش حملے میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ ہو سکتا ہے تاہم اب تک اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔
یاد رہے کہ چند یوم قبل کوئٹہ میں ایک مسافر بس پر بھی ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک جبکہ 15 افراد زخمی ہو گئے تھے۔ کوئٹہ میں محرم کے حوالے سے سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں اور شہر میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے مٹنے کے لیے پاک فوج کو بھی اسٹینڈ بائی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔