بون کانفرنس، عہد و پیماں کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے
6 دسمبر 2011تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف عہد و پیماں کی بجائے اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کانفرنس میں پچاسی ممالک کے ایک ہزار سے زائد مندوبین نے شرکت کی اور اس موقع پر 2014ء میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد کابل حکومت کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی۔ افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے ابتدائی کلمات میں افغانستان میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں اور ترقی کے دیرپا اثرات کے لیے عالمی برادری سے 2024ء تک افغانستان کی حمایت جاری رکھنے کی درخواست کی۔ اس موقع پر امریکہ، جرمنی اور دیگر ممالک سمیت اقوام متحدہ نے بھی افغانستان کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
مبصرین کے خیال میں اس ایک روزہ کانفرنس میں صرف وعدے ہوئے اور کوئی ٹھوس نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ افغانستان کی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے معروف تجزیہ کار پروفیسر بہار جلالی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کانفرنس کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانا ایک غورطلب پہلو ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ایسی کانفرنسوں میں عالمی امدادی اداروں کی جانب سے حمایت کے جو وعدے کیے گئے، اُن پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔
معروف سماجی تنظیم آکسفیم کی پالیسی مشیر لوسی ہینکاک کے مطابق افغانستان کانفرنس لوگوں کی توقعات کے برعکس رہی ہے۔ ان کے مطابق افغانستان کی صورتحال کی بہتری کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ لوسی ہینکاک کے مطابق افغان عوام کو یہ بات باور کروانا بات بہت ضروری ہے کہ عالمی برادری انہیں تنہا نہیں چھوڑ رہی ہے۔
کابل میں مقیم معروف سیاسی تجزیہ کار وحید مزدا اس کانفرنس کو صرف ایک علامتی تقریب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے انعقاد سے افغانستان کی صورتحال پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ان کے مطابق دس برس قبل اسی مقام پر منقعدہ پہلی کانفرنس میں بیرونی فوجوں کی افغانستان میں داخلے کی راہ ہموار کی گئی تھی اور اب ان کے انخلاء کو عملی شکل دینے کے لیے دوبارہ اس عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے۔ وحید مزدا نے کانفرنس میں شریک افغان وفد میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو نمائندگی نہ دینے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے کانفرنس میں پوری افغان قوم کے جذبات کی صحیح معنوں میں ترجمانی نہیں ہوئی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کی موجودگی اس فورم کی کامیابی کے لیے ناگزیر تھی۔ مزدا نے طالبان نمائندوں کو بھی مذاکراتی عمل میں شریک نہ کرنے کے اقدام کو ایک سنگین غلطی قرار دیا۔
بون کانفرنس میں شریک اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین احسن اوگلو کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کانفرنس میں عالمی رہنماؤں نے افغانستان کے بہتر مستقبل کے لیے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔ افغان قیادت کی جانب سے کانفرنس کے دوران سکیورٹی اور دیگر ریاستی اداروں کی استعداد کار کے لیے 2024ء تک عالمی برادری سے سالانہ پانچ تا سات بلین ڈالرز کی امداد کی تجویز پیش کی گئی تھی تاہم او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ فورم اقتصادی امداد کی بجائے صرف سیاسی حمایت کی یقین دہانی کے لیے ہے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: امجد علی